Quranic summary
پہلا پارہ
اس پارے میں پانچ باتیں ہیں:
1۔اقسام انسان
2۔اعجاز قرآن
3۔قصۂ تخلیقِ حضرت آدم علیہ السلام
4۔احوال بنی اسرائیل
5۔قصۂ حضرت ابراہیم علیہ السلام
1۔اقسام انسان تین ہیں: مومنین ، منافقین اور کافرین۔
مومنین کی پانچ صفات مذکور ہیں:
۱۔ایمان بالغیب ۲۔اقامت صلوۃ ۳۔انفاق ۴۔ایمان بالکتب ۵۔یقین بالآخرۃ
منافقین کی کئی خصلتیں مذکور ہیں: جھوٹ، دھوکا، عدم شعور، قلبی بیماریاں، سفاہت، احکام الٰہی کا استہزائ، فتنہ وفساد، جہالت، ضلالت، تذبذب۔
اور کفار کے بارے میں بتایا کہ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر اور آنکھوں پر پردہ ہے۔
2۔اعجاز قرآن:
جن سورتوں میں قرآن کی عظمت بیان ہوئی ان کے شروع میں حروف مقطعات ہیں یہ بتانے کے لیے کہ انھی حروف سے تمھارا کلام بھی بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا بھی، مگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کے کلام جیسا کلام بنانے سے عاجز ہو۔
3۔قصۂ حضرت آدم علیہ السلام :
اللہ تعالیٰ کا آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنانا، فرشتوں کا انسان کو فسادی کہنا، اللہ تعالیٰ کا آدم علیہ السالم کو علم دینا، فرشتوں کا اقرارِ عدم علم کرنا، فرشتوں سے آدم علیہ السلام کو سجدہ کروانا، شیطان کا انکار کرنا پھر مردود ہوجانا، جنت میں آدم وحواء علیہما السلام کو شیطان کا بہکانا اور پھر انسان کو خلافتِ ارض عطا ہونا۔
4۔احوال بنی اسرئیل:
ان کا کفران نعمت اور اللہ تعالیٰ کا ان پر لعنت نازل کرنا۔
5۔ قصہّ حضرت ابراہیم علیہ السلام:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کرنا اور پھر اللہ تعالیٰ سے اسے قبول کروانا اور پھر توبہ و استغفار کرنا۔
پہلے پارے کا خلاصہ
پہلے پارے کا آغاز سورہ فاتحہ سے ہوتا ہے۔ اس سورہ کو اُمّ الکتاب بھی کہا جاتا ہے۔ حدیث پاک کے مطابق‘ سورہ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام امراض کی شفا رکھی ہے۔ سورہ فاتحہ کا آغاز بسم اللہ سے ہوتا ہے۔ بسم اللہ کی تلاوت کے ذریعے اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ہم ہر کام کا آغاز اللہ کے بابرکت نام کے ساتھ کرتے ہیں‘ جو نہایت مہربان اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔ بسم اللہ کے بعد سورہ فاتحہ میں اللہ کی حمد اور ثنا کا بیان ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں جو مہربان اور بہت زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ اس کے بعد اس بات کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ یوم جزا کا مالک ہے۔ یومِ جزا ایک ایسا دن ہے‘ جس میں جزا اور سزا کا صحیح اور حقیقی فیصلہ ہوگا۔ ہر ظالم‘ کافر اور غاصب کو اپنے کیے کا جواب دینا پڑے گا۔ اس کے بعد سورہ فاتحہ میں اس عقیدے کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرنے والے اور تجھ ہی سے مدد مانگنے والے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے سیدھے راستے کی طلب کی گئی ہے جو کہ ان لوگوں کا راستہ ہے‘ جن پر اللہ کا انعام ہوا اور ان لوگوں کا راستہ نہیں‘ جو اللہ کے غضب کا نشانہ بنے یا گمراہ ہوئے۔ سورہ فاتحہ کے بعد سورہ بقرہ ہے۔ سورہ بقرہ کے آغاز میں تین گروہوں کا ذکر کیا گیا؛ ایک ایمان والوں کا گروہ‘ جن کا اللہ‘ یومِ حساب‘ قرآن اور سابقہ کتب پر ایمان ہے اور جو نمازوں کو قائم کرنے والے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ دوسرا گروہ کافروں کا گروہ ہے‘ جو کسی بھی طور پر ایمان اور اسلام کے راستے کو اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ تیسرا گروہ منافقین کا گروہ ہے‘ جو بظاہر تو ایمان کا دعویدار ہے‘ لیکن ان کے دِلوں میں کفر چُھپا ہوا ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جو لوگ رسول اللہﷺ پر نازل ہونے والی کتاب کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں ان کو چاہیے کہ قرآن کی کسی سورت جیسی کوئی سورت لے کر آئیں؛ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو انہیں چاہیے کہ اس آگ سے ڈر جائیں جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالی نے انسانوں کے جدِ امجد جناب آدم علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر کیا ہے۔ آدم علیہ السلام کی پیدائش کاواقعہ ان تمام سوالوں کا جواب پیش کرتا ہے کہ انسان کی پیدائش کب‘ کیوں اور کیسے ہوئی۔ انسانوں کی تخلیق سے قبل زمین پر جنات آباد تھے‘ جنہوں نے زمین پر سرکشی اور بغاوت کی‘ جسے کچلنے کے لیے اللہ تعالی نے فرشتوں کی ایک جماعت کو کہ جس میں ابلیس (عزازیل) بھی شامل تھا‘ روانہ کیا۔ ابلیس؛ اگرچہ گروہ جنات سے تھا‘ لیکن مسلسل بندگی کی وجہ سے وہ فرشتوں کی جماعت میں شامل ہوگیا تھا۔ اس بغاوت کوکچلنے کے بعد ابلیس کے دل میں ایک خفیہ تکبرکی کیفیت پیدا ہو گئی جس سے اللہ علیم و قدیر پوری طرح آگاہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر انسانوں کی تخلیق کا فیصلہ فرمایا اور فرشتوں سے مخاطب ہو کرکہا: میں زمین پر ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں۔ فرشتے اس سے قبل زمین پر جنات کی یورش دیکھ چکے تھے؛ چنانچہ انہوں نے کہا: اے اللہ! تُو زمین پر اُسے پیدا کرے گا‘ جو خون بہائے گا اور فساد پھیلائے گا‘ جبکہ ہم تیری تعریف اور تقدیس میں مشغول رہتے ہیں۔ اللہ نے کہا: جو میں جانتا ہوں‘ تم نہیں جانتے۔ اللہ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنانے کے بعد ان کو علم کی دولت سے بہرہ ور فرمایا اور ان کو اشیا کے ناموں سے آگاہ کر دیا۔ اس کے بعد فرشتوں اور آدم علیہ السلام کو جمع کر کے بعض اشیا کے ناموں کے بارے میں ان سے سوالات کیے‘ چونکہ فرشتے ان اشیا سے بے خبر تھے‘ اس لیے انہوں نے اللہ کی پاکیزگی کا اعتراف اور اپنی عاجزی کا اظہار کیا۔ اللہ نے آدم علیہ السلام کو ان اشیا کا نام بتلانے کا حکم دیا تو انہوں نے ان اشیا کے نام فوراً بتلا دیے۔ اللہ نے فرشتوں کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ کیا میں نے تم کو نہیں کہا تھا کہ میں زمین و آسمان کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہوں اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو‘ اس کو بھی جانتا ہوں۔ جب آدم علیہ السلام کی فضیلت ظاہر ہو گئی‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کے سامنے جُھک جائیں۔ فرشتوں میں چونکہ سرکشی نہیں ہوتی‘ اس لیے تمام فرشتے آدم علیہ السلام کے سامنے جُھک گئے؛ تاہم ابلیس نے آدم علیہ السلام کی فضیلت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس تکبر پر اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو ذلیل و خوار کر کے اپنی رحمت سے دُور فرما دیا اور آدم علیہ السلام کو ان کی اہلیہ کے ساتھ جنت میں آباد فرمایا۔ ابلیس نے اس موقع پر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ رہتی دنیا تک آدم علیہ السلام اور ان کی ذُریت کو راہِ ہدایت سے بھٹکانے کے لیے سرگرم رہے گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جنت میں آباد فرمایا تو ان کو ہر چیز کھانے پینے کی اجازت دی ‘مگر ایک مخصوص درخت کے قریب جانے اور اس کا پھل کھانے سے روک دیا۔ ابلیس جو کہ آتشِ انتقام میں جل رہا تھا‘ اس نے آدم علیہ السلام اور جناب حوا علیہا السلام کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ آپ کو شجر ممنوعہ سے اس لیے روکا گیا ہے کہ کہیں آپ کو ہمیشہ کی زندگی حاصل نہ ہو جائے۔ آدم اور ان کی اہلیہ حوا علیہما السلام وسوسے میں مبتلا ہو کر شجر ممنوعہ کے پھل کو کھا لیتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ اس پر خفگی کا اظہار فرماتے ہیں اور ان سے لباسِ جنت اور جنت کی نعمتوں کو چھین لیتے ہیں اور ان کو جنت سے زمین پر اُتار دیتے ہیں۔ آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام جب معاملے پر غور کرتے ہیں تو انتہائی نادم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آ کر دُعا مانگتے ہیں۔ اے ہمارے پروردِگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقینا خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ آدم علیہ السلام اور حوا علیہا السلام جب اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں تو اللہ ان کی خطا کو معاف فرما دیتے ہیں اور ساتھ ہی اس امر کا بھی اعلان کر دیتے ہیں کہ زمین پر رہو میں تمہارے پاس اپنی طرف سے ہدایت بھیجوں گا۔ پس‘ جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا‘ نہ اس کو غم ہو گا‘ نہ خوف۔ اس پارہ میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر اپنے احسانات اور انعامات کا ذکر بھی کیا ہے اور ان کی نافرمانیوں اور ناشکریوں کا بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے بنی اسرائیل پر من و سلویٰ کو نازل فرمایا، ان کو رزق کی تگ ودو کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان پر بادلوں کو سایہ فگن فرما دیا اور ان کو دھوپ سے محفوظ فرما دیا۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بارہ چشموں کو جاری فرمایا لیکن ان تمام نعمتوں کو حاصل کرنے کے بعد بھی وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور نا شُکری کرتے رہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کا بھی ذکرکیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے اللہ تعالیٰ کے گھرکو تعمیر فرمایا۔ تعمیر فرمانے کے بعد آپ علیہ السلام نے دعامانگی: اے باری تعالیٰ ہمارے عمل کو قبول فرما‘ بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔ آ پ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا بھی مانگی: اے اللہ! اہلِ حرم کی رہنمائی کے لیے ایک ایسا رسول بھی مبعوث فرمایا جو ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم د ے اور ان کو پاک کرے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو قبول فرما کرجناب محمد رسول اللہﷺ کو مبعوث فرمایا۔ دُعا ہے کہ اللہ ہمیں پہلے پارے کے مضامین کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!
دُوسرے پارے کا خلاصہ
دوسرے پارے کا آغاز سورہ بقرہ سے ہو تا ہے ۔اس کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے قبلے کی تبدیلی کا ذکر کیا ہے۔ مسلمانوں پر جب اللہ نے نماز کو فرض کیا‘ تو ابتدائی طور پر مسلمان بیت المقدس کے طرف چہرہ کر کے نماز کو ادا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ کی یہ دلی تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ قبلے کو تبدیل کر کے بیت الحرام کو قبلہ بنا دے ۔ نبی ﷺ اس تمنا کے اظہار کے لیے کئی مرتبہ اپنے چہرے کو آسمان کی طرف اُٹھایا کرتے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی دلی تمنا کو پورا فرما کر بیت اللہ الحرام کو قبلہ بنا دیا۔
اس پر بعض کم عقل لوگوں نے تنقید کی کہ جس طرح قبلہ تبدیل ہوا مذہب بھی تبدیل ہو جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قبلے کی تبدیلی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھ لینا چاہتا ہے کہ کون رسول کریم ﷺ کا سچا پیرو کار ہے اور کون ہے‘ جو اپنے قدموں پرپھر جانے والا ہو۔ وگرنہ جہتیں توساری اللہ تعالی کی بنائی ہوئی ہیں ۔مشرق ومغرب اللہ کے لیے ہیں اوروہ جس کو چاہتاہے ‘صراط ِمستقیم پرچلادیتاہے ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اہل کتاب کے پختہ علم والے لوگ رسول کریم ﷺ کو اس طرح پہچانتے تھے ‘جس طرح باپ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں‘لیکن اس کے باوجود ‘ان کا ایک گروہ جانتے بوجھتے ہوئے حق چھپاتا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس کے بندوں کو اس کا ذکر کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں '' تم میرا ذکر کرو‘ میں تمہارا ذکر کروں گاــ‘‘۔ یہ بات با لکل واضح ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمارا ذکر کرنا شروع کر دے‘ تو ہماری کوئی مصیبت اور کوئی دکھ باقی نہیں رہ سکتا ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو مخاطب ہو کر کہا ''اے ایمان والو!صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی انسان مشکل میں ہو‘ اس کو مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لیے نماز اور صبر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے ۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید ‘ نصرت اور محبت صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے ‘‘۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔ پس‘ جو کوئی بھی حج اور عمر ہ کرے اس کو صفا اور مروہ کا طواف کرنا چاہیے ۔اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ‘جو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اس کی آیات کو چھپاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ایسے لوگوں پر اللہ اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو ‘یعنی ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے محروم رہیں گے ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کہا کہ حقیقی نیکی یہ ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ کی ذات ‘یومِ حساب‘ تمام انبیا ء اور ملائکہ پر پختہ ایمان ہو اور وہ اللہ کی رضا کے لیے اپنے مال کو خرچ کرنے والا ہو ۔نماز کو قائم کرنے والا ہو‘ زکوٰۃ کو صحیح طریقے سے ادا کرنے والا ہو۔ وعدوں کو پُورا کرنے والا ہواور تنگی اور کشادگی میں صبر کرنے والا ہو اورجس میں یہ تمام اوصاف ہوں گے‘ وہی حقیقی متقی ہے ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قانون ِقصاص اور دیت کا ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ آزاد کے بدلے آزاد ‘ غلام کے بدلے غلام‘ عورت کے بدلے عورت کو قتل کیا جائے گا ‘تاہم؛ اگر کوئی اپنے بھائی کو دیت لے کر معاف کر دیتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رخصت ہے‘ لیکن زندگی بہر حال قصاص لینے میں ہی ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کا ذکر کیا اور اللہ تعالیٰ نے مسافروں اور مریضوں کو اس بات کی رخصت دی ہے کہ اگر وہ رمضان کے روزے نہ رکھ سکیں تو وہ بعد میں کسی اور وقت اپنے روزوں کو پُورا کر سکتے ہیں ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاند کے گھٹنے بڑھنے کی غرض و غایت بتلائی کہ اس کے ذریعے اوقات اور حج کے ایام کا تعین ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے کیلنڈر کو دیکھنے کے لیے صرف آنکھوں کی ضرورت ہے ۔ انسان کے پاس ؛اگر بینائی ہو تو انسان صرف چاند کو دیکھ کر ہی وقت کا تعین کر سکتا ہے ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حج کے آداب کا ذکر کیا کہ حج میں بے حیائی ‘لڑائی اور جھگڑے والی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے اوریہ بھی کہا کہ حاجی کوزادِ راہ کی ضرورت ہے اور سب سے بہترین زاد ِراہ تقویٰ ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ بعض لوگ دُعا مانگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں بہترین دے‘ جبکہ بعض لوگ جو ان کے مقابلے میں بہتر دُعامانگتے ہیں ‘وہ کہتے ہیں کہ ''اے پرور دگار ہمیں دنیا میں بھی بہترین دے اور آخرت میں بھی بہترین دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا ‘‘۔
اس پارے میں اللہ تعالی نے سابقہ امتوں کے ان لوگوں کابھی ذکر کیاہے‘ جن کوایمان لانے کے بعد تکالیف‘ اورمصائب کو برداشت کرناپڑا۔اللہ تعالیٰ نے اہل ایما ن کو سابقہ امتوں کی تکالیف سے اس لیے آگاہ فرمایا‘ تاکہ ان کے دلوں میں یہ بات راسخ ہوجائے کہ جنت میں جاناآسان نہیں ‘بلکہ اس کے لیے تکالیف اورآزمائشوں کوبرداشت کرناپڑے گا۔ صحابہ کرام نے اللہ تعالی کے اس فرمان کا بڑا گہرا اثر لیا اور اللہ تعالی کے راستے میں بے مثال قربانیاں دیں ۔ حضرت بلال ؓ کو حرہ کی تپتی ہوئی سر زمین پرلٹایا گیا۔ تپتی ریت پر ان کی کمر کو جھلسا دیا گیا۔ان کے سینے پر سنگِ گراں رکھاگیا‘ آپ کے سینے میں سانس تنگ ہوگیا‘ لیکن پھر بھی آپ احداحد کا نعرہ لگاتے رہے ۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کوظلم کانشانہ بنایاگیا ۔ ابوجہل نے ان کے جسم کے نازک حصوں پرنیزوں کی انی کومارااورستم بالائے ستم کہ آپ کی ایک ٹانگ کوایک اونٹ کے ساتھ اوردوسری ٹانگ کو دوسرے اونٹ کے ساتھ باندھاگیا‘ایک اونٹ کوایک طرف ہانکاگیا اوردوسرے اونٹ کودوسری سمت ہانکاگیا ۔سمیہ رضی اللہ عنہا کاوجود چرچرایااور دوٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ۔سمیہ رضی اللہ عنہا نے جامِ شہادت کونوش فرمالیا‘ لیکن اللہ کی توحید سے ہٹناگوارانہیں کیا ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے بارے میں بتلایا کہ گو ان میں بعض فائدے والی باتیں بھی ہیں‘ لیکن ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں ۔اس لیے بنی نو ع انسان کو ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ناپاکی کے ایام میں عورتوں سے اجتناب کا حکم دیا اور طلاق کے مسائل کو بھی بیان فرمایا کہ طلاق کا اختیار مرد کے پاس دو دفعہ ہوتا ہے؛ اگر وہ مختلف اوقات میں دو دفعہ طلاق دے دے ‘تو وہ اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے‘ لیکن؛ اگر وہ تیسری طلاق بھی دے دے تو پھر رجوع کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے۔اس کے بعد اللہ نے رضاعت کی مدت کا ذکر کیا کہ عورت اپنے بچے کو دو برس تک دودھ پلا سکتی ہے ۔ اس کی بعد اللہ نے بیوہ کی عدت کا ذکر کیا کہ بیوہ عورت کو چاہیے کہ چار مہینے اور دس دن تک عدت پوری کرے ۔اس کے بعد اگر وہ کہیں اور نکاح کرنا چاہے‘ تو اسے اجازت ہے ۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نماز وں کی حفاظت کا ذکر کیا کہ تمام نمازوں خصوصاًدرمیانی‘ یعنی عصر کی نماز کی حفاظت کرنی چاہیے ۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی دوسرے پارے میں بیان کردہ مضامین کوسمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اوران سے حاصل ہونے والے اسباق پرعمل پیراہونے کی بھی صلاحیت عطا فرمائے۔( آمین)
اس پارے میں اللہ تعالی نے سابقہ امتوں کے ان لوگوں کابھی ذکر کیاہے جن کوایمان لانے کے بعد تکالیف اورمصائب کو برداشت کرناپڑا۔اللہ تعالیٰ نے اہل ایما ن کو سابقہ امتوں کی تکالیف سے اس لیے آگاہ فرمایا‘ تاکہ ان کے دلوں میں یہ بات راسخ ہوجائے کہ جنت میں جاناآسان نہیں ۔
تیســرے پـــارے کا خلاصہ
📖تیسرے پارے کا آغاز بھی سورہ بقرہ سے ہوتا ہے۔ تیسرے پارے کے شروع میں اللہ نے اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ کے بعض رسولوں کو دوسرے رسولوں پر فضیلت حاصل ہے‘ ان میں سے بعض نے اللہ کے ساتھ کلام کیا اور بعض کے درجات کو اللہ نے بلند فرمادیا اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ تمام رسولوں میں سے سب سے زیادہ بلند مقام ہمارے نبی محمدﷺ کا ہے۔
📜 اس پارے میں آیت الکرسی ہے‘ جو قرآنِ مجید کی سب سے افضل آیت ہے۔ آیت الکرسی کی تلاوت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ شیاطین کے حملوں سے محفوظ فرما لیتے ہیں۔
تیسرے پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے اہم واقعات بھی بیان کیے ہیں۔
📝 پہلا واقعہ جناب ابراہیم علیہ السلام کا دربارِ نمرود میں اُس کے ساتھ اللہ کی ذات کے بارے میں مناظرانہ مکالمے کا ہے۔ جس وقت ابراہیم علیہ السلام دربارِ نمرودمیں جاکر اللہ کی توحید کی تبلیغ کرتے ہیں' تو ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں کہتے ہیں:
میرا پروردگار زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔
جواب میں نمرود کہتا ہے کہ
میں بھی مارتا ہوں اور زندہ کرتا ہوں۔اس ظالم نے ایک مجرم کو آزاد کر دیا اور ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس کے مکر کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ
بے شک اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے‘ پس تُو اس کو مغرب سے لے کر آ۔
یہ بات سن کر نمرود کے لبوں پر چپ کی مہر لگ گئی‘ اس لیے کہ وہ جانتا تھاکہ اس مطالبے کو پورا کرنا ناممکن ہے۔
⬅️ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کے اس واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ ایک اجڑی ہو ئی بستی کے پاس سے گزرے اور کہا کہ یہ بستی کیونکر دوبارہ زندہ ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے عزیر علیہ السلام کوسو برس کے لیے سلا دیااور پھر ان کو دوبارہ زندہ کردیا۔
⏳ حضرت عزیر علیہ السلام اور جناب ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ یہ بات سمجھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں کو زندہ ہونے کا حکم دیں گے‘ تو مردہ انسان بالکل صحیح حالت میں اٹھ کر کھڑے ہوں گے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت کا بھی ذکر کیا ہے اور بتلایا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیے گئے مال کو اللہ تعالیٰ سات سو گنا کر کے پلٹائیں گے اور کئی لو گوں کو اس سے بھی زیادہ بدلہ ملے گا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے سود کی بھی مذمت کی اور کہا کہ جو لوگ سود کھانے سے باز نہیں آتے ‘ان کا اللہ او ر اس کے رسول کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔
📓سورہ بقرہ کے بعد سو رہ آلِ عمران ہے۔ سورہ آلِ عمران کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کو حق کے ساتھ نازل فرمایا جو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور اس سے قبل اس نے تورات اور انجیل کو نازل فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں اس امر کا بھی ذکر کیا کہ وہ رحمِ مادر میں انسانوں کو جس طرح چاہتا ہے‘ صورت عطا فرما دیتا ہے‘ وہ بغیر رنگ‘ روشنی اورکینوس کے دھڑکتے ہوئے دل والا انسان بنا دیتا ہے۔
🔝 اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں یہ بھی بتلایا کہ قرآن مجید میں دو طرح کی آیات ہیں‘ ایک محکم اور دوسری متشابہ۔ فرمایا کہ محکم آیات کتاب کی اصل ہیں اور متشابہات کی تاویل کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہوتا ہے وہ متشابہات کی تاویل کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور اہلِ ایمان کہتے ہیں ‘جو کچھ بھی ہمارے رب نے اتارا ہمارا اس پر کامل ایمان ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اس لیے جو آخرت کی فلاح و بہبود کا خواہشمند ہے‘ اس کو اسلام کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
🤍 اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اللہ نے آدم‘ نوح‘ آلِ ابراہیم اور آلِ عمران کو دنیا پر فضیلت عطا فرمائی تھی۔سورہ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے جنابِ عمران کی اہلیہ کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے منت مانی کہ وہ اپنے نوزائیدہ بچے کو اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کر دیں گی۔ آپ کے یہاں پر بچے کے بجائے بچی کی ولادت ہوئی۔ جناب عمران کی اہلیہ نے اپنی منت کو بچی ہونے کے باوجود پورا کیا اور آپ کا نام مریم رکھ کر آپ کو جناب زکریاعلیہ السلام کی کفالت میں دے دیا۔
♻️اللہ تعالیٰ نے جناب مریم کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیااور آپ کے بچپن سے لے کر جوانی تک کے تمام ایام اللہ کی بندگی میں صرف ہوتے رہے‘ یہاں تک کہ بارگاہِ الٰہی سے آپ کے لیے یہ کرامت بھی ظاہر ہوئی کہ آپ کے پاس بے موسم کے پھل آنے لگے۔ حضرت زکریا علیہ السلام جو مریم کے خالو بھی تھے‘ ایک دن اس محراب میں داخل ہوئے ‘جہاں سیدہ مریم عبادت میں مشغول رہتی تھیں‘ انہوں نے سیدہ مریم سے پوچھاکہ آپ کے پاس یہ بے موسم کے پھل کہاں سے آتے ہیں؟ کہا:
اللہ کی طرف سے آتے ہیں ‘وہ جس کو چاہتا ہے‘ بلا حساب رزق دیتا ہے۔
⬅️ حضرت زکریاعلیہ السلام بے اولاد تھے اور آپ کی بیوی بانجھ تھیں۔ سیدہ مریم کے پاس بے موسم کے پھل دیکھ کر جناب زکریا علیہ السلام بھی رحمت ِالٰہی سے پُرامید ہوگئے اور آپ نے دعا مانگی:
اے میرے پروردگار! مجھے بھی اپنی طرف سے پاک اولاد عطا فرما۔
حضرت زکریا علیہ السلام محراب میں نماز ادا فرما رہے تھے کہ فرشتے نے آپ کو پکارکر کہا:
''اے زکریا! آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یحییٰ نامی پارسا اورسردار بیٹے کی بشارت ہو‘‘۔ حضرت زکریا علیہ السلام اس کے بعد تین دن تک خلوت نشین ہوکر اللہ کے ذکر اور تسبیح میں مشغول رہے۔
⬅️اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جناب مریم کے ہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی معجزاتی ولادت کا ذکر کیا ہے۔ سیدہ مریم کادل اس بات کو قبول نہیں کررہا تھا‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو بنا شوہر کے ایک بیٹا عطا کیا‘ جو اللہ کے حکم سے کوڑھ اور برص کے مریضوں پر ہاتھ پھیرتے تو وہ شفایاب ہوجاتے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے لوگوں کو اللہ کے حکم سے گھر میں کھائے جانے اور باقی رہ جانے والے کھانے کی بھی خبر دیتے تھے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزاتی پیدائش کی وجہ سے عیسائی ان کو اللہ کا بیٹا قرار دینے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے‘ جن کو اللہ نے بن باپ اور بن ماں کے مٹی سے پیدا کیا اور کہا 'ہوجا‘ تو وہ ہوگئے۔ اس سورہ میں اللہ نے یہ بھی بتلایا کہ کفار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جان کے درپے تھے۔ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بشارت دی کہ میں آپ کو زندہ اٹھا لوں گا اور کفار آپ کا بال بھی بیکا نہیں کرسکیں گے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں رسول کریمﷺ کے مقام کا بھی ذکرکیا ہے کہ عالم ارواح میں اللہ نے انبیاء کرام کی روحوں سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ اگر ان کی زندگی میں محمد رسول اللہﷺ آجائیں تو پھر ان پر ایمان لانا اور ان کی حمایت کرنا گروہ انبیاء پر لازم ہوگا۔
⬇️اس پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کفر پر مرنے والے‘ اگر زمین کی مقدار کے برابر سونا بھی لے کر آئیں تو اللہ تعالیٰ اس سونے کے بدلے میں بھی انہیں معاف نہیں کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔
چوتھے پارے کا خلاصہ
چوتھے پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ''تم اس وقت تک بھلائی کو نہیں پہنچ سکتے‘ جب تک اس چیز کوخرچ نہیں کرتے‘ جو تمہیں محبوب ہے اور جوکچھ تم خرچ کرتے ہو‘ اللہ اس کو خوب جانتا ہے‘‘۔ اس آیت کے نزول کے بعد صحابہ کرامؓ نے اپنے محبوب ترین مال کو بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرنا شروع کر دیا تھا۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ جناب ابوطلحہؓ بہت مالدار صحابی تھے۔ ان کا سب سے محبوب مال بیرحا کا باغ تھا‘ جو مسجد نبوی کے بالمقابل تھا۔ رسول کریمﷺ کبھی کبھار اس باغ میں تشریف لاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے رسول کریمﷺ سے عرض کی کہ میرا سب سے محبوب مال بیرحاء کا باغ ہے‘ میں اسے اللہ کے راستے میں صدقہ کرتا ہوں۔
اس پارے میں اللہ نے اس بات کا بھی ذکرکیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے پہلا گھر مکہ مکرمہ میں تعمیر کیا گیا تھا اور ہر صاحب استطاعت مسلمان پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ جو بھی اس گھر میں داخل ہوتا ہے‘ اس کو امان حاصل ہو جاتی ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا بھی ذکر کیا کہ اگر اہل ایمان‘ اہل کتاب کے کسی گروہ کی اطاعت اختیار کریں گے تو وہ ان کو ایمان کی سرحدوں سے نکال کر کفر کی حدود میں داخل کر دے گا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو اس بات کی نصیحت کی کہ ان کو اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لینا چاہیے اور تفرقے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی رسی سے مُراد قرآن مجید ہے۔ اگر تمام مسلمان مضبوطی کے ساتھ قرآن پاک کو تھام لیں تو ان کے باہمی اختلافات بہ آسانی دور ہو سکتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ قیامت کے دن اہلِ ایمان کے چہرے سفید اور ایمان کو ٹھکرانے والوں کے چہرے سیاہ ہو ں گے۔ سفید چہروں والے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے مستحق ٹھہریں گے‘ جبکہ سیاہ چہرے والے اپنے کفر کی وجہ سے شدید عذاب سے دوچار ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے اس پارے میں اس بات کا بھی ذکر کیا کہ مسلمان بہترین اُمت ہیں‘ جن کی ذمہ داری نیکی کا حکم دینا اور بُرائی سے روکنا ہے؛ اگر ہم صحیح معنوں میں بہترین اُمت بننا چاہتے ہیں‘ تو ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے راستے پر چلنا چاہیے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جب مسلمانوں کو کوئی تکلیف آئے تو کافر خوش ہوتے ہیں اور جب ان کو کوئی خوشی حاصل ہو تو کافر‘ غیظ و غضب میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ اگر مسلمان صبر اور تقویٰ کا راستہ اختیار کریں تو کافروں کی کوئی خوشی اور ناراضی مسلمانوں کو کوئی گزند نہیں پہنچا سکتی۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ نے غزوہ بدر کا ذکر کیا ہے کہ اللہ نے نبی کریمﷺ سے وعدہ کیا تھا کہ مسلمانوں کی نصرت کے لیے تین ہزار فرشتوں کو اتارے گا اور اسی طرح اللہ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر کافر مسلمانوں تک رسائی حاصل کر لیں گے اور مسلمان صبر و استقامت سے ان کا مقابلہ کریں‘ تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ پانچ ہزار فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لیے اتارے گا۔ سورہ انفال میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کی مدد ایک ہزار فرشتوں سے کی جائے گی‘ جن کے بعد مزید فرشتے آئیں گے۔ اللہ نے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ فرشتوں کی مدد تو ایک خوش خبری اور بشارت ہے‘ وگرنہ اصل میں تو مدد فرمانے والی اللہ کی ذات بالا صفات ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ایمان والو! سود در سود کھانے سے اجتناب کرو۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنت کی طرف تیزی سے بڑھنے کی تلقین کی ہے اور کہا ہے کہ جنت کا عرض زمین اور آسمان کے برابر ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جنتی مومنوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ جب ان سے صغیرہ یا کبیرہ گناہوں کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو انہیں اللہ کا خوف دامن گیر ہو جاتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا کون گناہوں کو معاف کر سکتا ہے۔
غزوۂ احد میں مسلمانوں کو کفار کے ہاتھوں کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اس نقصان کی وجہ سے مسلمان بہت دکھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہیں زخم لگا ہے تو تمہاری طرح تمہارے دشمنوں کو بھی زخم لگا ہے اور ان ایام کو ہم لوگوں کے درمیان بدلتے رہتے ہیں اور اس ذریعے سے اللہ مومنوں کو بھی جانچ لیتا ہے اور کئی لوگوں کو شہادت کا منصب بھی عطا فرما دیتا ہے۔ اللہ کے اس فرمان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خوشی اور غم‘ تکلیف اور راحت سب اللہ کی طرف سے ہے اور دنوں کے پھرنے میں اللہ کی کوئی نہ کوئی حکمت ہوتی ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ اہلِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی ایذا رسانی کی باتیں سنو گے لیکن تم نے دل گرفتہ نہیں ہونا اور صبر اور تقویٰ کو اختیار کرنا ہے بے شک یہ بہت بڑا کام ہے۔ اللہ کے نبیﷺ کے بارے میں مشرکین‘ عیسائی اور یہودی طرح طرح کی باتیں کرتے رہے اور ان کے ساتھ ساتھ منافقین کا سردار عبداللہ ابن ابی بھی اپنے ساتھیوں کی ہمراہی میں اللہ کے آخری رسولﷺ کو ایذا دینے میں مصروف رہا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی مدد فرمائی اور آپﷺ کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو ناکام اور نامراد بنا دیا۔
سورہ آل عمران کے بعد سورہ النساء ہے۔ سورہ النساء کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے جو اُن کا پروردگار ہے اور اس نے ان کو ایک جان‘ یعنی آدم علیہ السلام سے پیدا کیا اور ان سے ان کی زوجہ کو پیدا کیا اور پھر کثیر تعداد میں مردوں اور عورتوں کو پیدا کیا۔ اس آیت میں اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ذات پات اور برادری وجۂ عزت نہیں‘ اس لیے کہ تمام انسانوں کی اصل ایک ہی ہے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے صنفی بدامنی کو روکنے والی ایک تدبیر بھی بتلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''تم اپنی من پسند دو‘ تین اور چار عورتوں سے نکاح کر سکتے ہو؛ تاہم اگر تم محسوس کرو کہ تم انصاف نہیں کر سکتے تو ایسی صورت میں ایک ہی کافی ہے‘‘۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کے مسائل کو بھی بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے والد کی جائیداد میں سے بیٹوں کا بیٹیوں کے مقابلے میں دُگنا حصہ رکھا ہے۔ اگر کسی انسان کی صرف بیٹیاں ہوں تو اس صورت میں وہ انسان کی دو تہائی جائیداد کی مالک ہوں گی اور اگر صرف ایک بیٹی ہو تو وہ نصف جائیداد کی مالک ہو گی۔ شوہر اپنی بیوی کی جائیداد میں ایک چوتھائی حصے کا مالک ہو گا‘ جبکہ بیوی اپنے شوہر کی جائیداد میں آٹھویں حصے کی مالک ہو گی۔ والد اور والدہ کا اپنے بیٹے کی جائیداد میں چھٹا حصہ ہو گا‘ اسی طرح بے اولاد شخص کی جائیداد اس کے بہن بھائیوں میں تقسیم ہو گی۔ جائیداد کی تقسیم سے قبل انسان کے ذمہ واجب الادا قرض کو ادا کرنا چاہیے اور اگر اس نے کسی کے حق میں کوئی وصیت کی ہو‘ جو ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہو سکتی‘ تو اس کو ادا کرنا چاہیے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے حق مہر کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ ''انسان اپنی بیوی کو حق مہر کے طور پر خزانہ بھی دے سکتا ہے اور انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ حق مہر دینے کے بعد اس کو واپس لینے کی کوشش کرے‘‘۔
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
پانچویں پارے کا خلاصہ
پانچویں پارے کا آغاز بھی سورۃ النساء سے ہوتا ہے۔ چوتھے پارے کے آخر میں ان رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے‘ جن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ پانچویں پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے چُنی جانے والی عورتوں کے اوصاف کا ذکر کیا کہ نہ ان میں بُرائی کی علت ہونی چاہیے اور نہ غیر مردوں سے خفیہ مراسم پیدا کرنے کی بری عادت۔ اسی طرح انسان جب کسی عورت سے نکاح کا ارادہ کرے تو اُسے عورت کے اہل خانہ کی اجازت سے یہ کام کرنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نصیحت کی ہے کہ ان کو باطل طریقے سے ایک دوسرے کا مال ہڑپ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ باہمی رضا مندی سے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پارے میں اپنے بندوں کو خوشخبری بھی دی ہے کہ اگر وہ بڑے گناہوں سے بچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے چھوٹے گناہوں کو معاف فرما دے گا اور ان کو جنت میں داخل فرما دے گا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے گھریلو سطح پر اختیارات کا تعین بھی فرما دیا کہ مرد‘ عورتوں پر نگران کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قرآن مجید نے ہمیشہ مرد و زن کے باہمی حقوق کا ذکر کیا ہے لیکن حتمی فیصلے کرنے کے حوالے سے مردوں کو عورتوں پر یک گونہ فوقیت دی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو مردوں کی وہبی فضیلت ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ عام طور پر گھروں کے اخراجات مردوں کے ذمے ہوتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے والدین‘ قریبی اعزہ و اقارب‘ یتیموں‘ مسکینوں‘ قریبی ہمسایوں اور دور کے ہمسایوں سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے۔
اس پارے میں اس آیت کا بھی نزول ہوا کہ اے ایمان والو! نماز کے قریب نہ جائو جبکہ تم نشے کی حالت میں ہو‘ یہاں تک کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ کیا کہہ رہے ہو۔ اس آیت کے شانِ نزول کے حوالے سے ابوداؤد‘ نسائی اور ترمذی نے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ روایت کی ہے کہ '' حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے شراب حرام ہونے سے پہلے چند مہاجرین اور انصار صحابہ کو دعوت پر مدعو کیا۔ انہوں نے کھانا کھایا اور شراب پی لی‘ جب نماز کا وقت آیا تو عبدالرحمنؓ بن عوف نے نماز پڑھائی‘‘۔ نشہ کی وجہ سے آپ کوئی لفظ پڑھنا بھول گئے‘ جس سے آیت کے معنی بالکل بدل گئے تو اللہ نے اس پر مذکورہ بالا آیت کا نزول فرمایا۔ اس کے کچھ دنوں کے بعد سورۃ مائدہ میں اللہ نے ان آیات کا نزول فرما دیا کہ ''اے ایمان والو! بے شک شراب‘ جوا‘ بت گری اور پانسہ ناپاک اور شیطانی کام ہیں۔ پس‘ تم ان سے بچو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ‘‘۔ اور شراب ہمیشہ کیلئے حرام ہو گئی۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے شرک کو سب سے بڑا گناہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ شرک کے علاوہ ہر گناہ کو معاف کر سکتا ہے‘ لیکن وہ شرک کو کسی بھی طور پر معاف نہیں کرے گا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے حسدکی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حسدکرنے والے لوگ درحقیقت اللہ کے فضل اور عطا سے حسد کرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر کیے جانے والے انعامات کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ابراہیم علیہ السلام کی آل کو نبوت اور حکومت سے نوازا تھا۔
اللہ نے اس پارے میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ''اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل (افراد) کے پاس پہنچا دو۔ امانتوں میں ہر قسم کی امانتیں‘ چاہے اللہ کی ہوں یا بندوں کی‘ شامل ہیں۔ رسول کریمﷺ کو اہل مکہ دشمنی کے باوجود امین کہتے تھے اور جس دن آپﷺ ہجرت فرما رہے تھے‘ اس دن بھی کفار کی امانتیں آپ کے پاس موجود تھیں‘ جن کو لوٹانے کی ذمہ داری آپﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کر کے مدینہ روانہ ہوئے تھے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسولﷺ کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے اختیار (یا علم) والوں کی بھی‘ پھر اگر کسی معاملے میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو‘‘۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت لازمی ہے اور صاحب اختیار کی اطاعت بھی ہونی چاہیے‘ لیکن اگر تنازع کی صورت پیدا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات کو حرفِ آخر سمجھنا چاہیے۔ امام احمد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول کریمﷺ نے ایک انصاری صحابی کی قیادت میں ایک فوجی دستے کو بھیجا‘ دستے کے امیر کسی بات پر لوگوں سے ناراض ہو گئے تو انہوں نے آگ جلائی اور لوگوں کو اس میں کودنے کے لیے کہا۔ دستے کے ایک نوجوان نے لوگوں کو کہا کہ ہم لوگ رسول کریمﷺ پر آگ سے بچنے کے لیے ایمان لائے ہیں‘ اس لیے ہم جلدی نہ کریں‘ یہاں تک کہ رسولﷺ سے پوچھ لیں۔ جب انہوں نے واپس آکر رسول کریمﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے کہا کہ اگر تم لوگ اس میں کود جاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے۔ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر لیڈر یا حاکم قرآن وسنت کے خلاف یا عوام کے مفادات اور مصالح کے خلاف کوئی اقدامات کر رہا ہو تو اس کے ان ناجائز اقدامات کو قبول کرنا خلافِ دین ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی اطاعت کی اہمیت کا بھی ذکر کیا کہ جو رسول کریمﷺ کی اطاعت کرتا ہے‘ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے۔ اسی طرح اس پارے میں یہ بھی ارشاد ہوا کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے ہیں‘ وہ قیامت کے دن نبیوں‘ صدیقوں‘ شہیدوں اور صلحاء کے ہمراہ ہوں گے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے تحفے اور سلام کے جواب دینے کے آداب بھی بتلائے ہیں کہ جب کوئی کسی کو سلام کہے یا تحفہ دے تو ایسی صورت میں بہتر جواب اور بہتر تحفہ پلٹانا چاہیے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں کم از کم اتنا جواب اور اتنا تحفہ ضرور دینا چاہیے‘ جتنا وصول کیا گیا ہو۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے دارالکفر میں رہنے والے مسلمانوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فرائض اور واجبات کو احسن انداز میں ادا کریں‘ اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو ان کو اس ملک سے ہجرت کر جانی چاہیے۔ اگر وہ ہمت اور استطاعت رکھنے کے باوجود ہجرت نہیں کرتے تو ان کو اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہونا پڑے گا؛ تاہم ایسے لوگ اور عورتیں‘ جو معذوری اور بڑھاپے کی وجہ سے ہجرت سے قاصر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے مواخذہ نہیں کریں گے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے نماز کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نماز حالت جہاد میں بھی معاف نہیں؛ تاہم جہاد اور سفر کے دوران نمازکو قصر کیا جا سکتا ہے۔ خوف اور جنگ کی حالت میں فوج کے ایک حصہ کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے جبکہ ایک حصے کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نماز ادا کرنا چاہیے اور جونہی امن حاصل ہو جائے‘ نماز کو بروقت اور احسن انداز سے ادا کرنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کی مخالفت کرنے والوں کی بھی مذمت کی ہے اور ارشاد فرمایا کہ جو کوئی ہدایت واضح ہو جانے کے بعد رسول اللہﷺ کی مخالفت کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کا رخ اس کی مرضی کے راستے کی طرف موڑ دیں گے اور اس کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے‘ جو بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔ اس پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے بارے میں اپنے بندوں کو بتلاتے ہیں کہ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لے آئیں اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کریں تو اللہ تعالیٰ کو انہیں عذاب دینے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایمان اور شکر گزاری کے راستے کو اختیار کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ مجید کو پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
چھٹے پارے کا خلاصہ
قرآن پاک کے چھٹے پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ غلط بات کو پسند نہیں کرتا‘ مگر یہ کہ اگر کوئی مظلوم شخص اپنے اوپر کیے جانے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے ایسا کرنے کی اجازت ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے اس طرز عمل کا ذکر کیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ؐکے درمیان تفریق کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بات کو تو مانتے ہیں ‘لیکن رسول ﷺ کی بات کو نہیں مانتے یا دوسرے ترجمے کے مطابق اللہ کے بعض رسولوں کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں یعنی موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو تو مانتے ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ کا انکار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ حق سے انکاری ہیں جبکہ مومنوں کا طرز ِعمل یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرامین کو بیک وقت مانتے ہیں یعنی اللہ کے تمام رسولوں کو مانتے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہودی سیدہ مریم علیہا السلام کی کردار کشی کیا کرتے تھے حالانکہ وہ پارسا اور پاک دامن عورت تھیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ یہودی اپنی دانست میں عیسیٰ علیہ السلام کو شہید کرچکے تھے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ عیسیٰ کو یقیناشہید نہیں کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو آسمانوں کی سمت اٹھا لیا۔ اسی طرح ان کو اللہ نے سودکھانے سے روکا تھا لیکن وہ اس غلط کام میں مسلسل ملوث رہے ۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کے لیے درد ناک عذاب کو تیار کر دیا تھا ۔لیکن اہل کتاب کے پختہ علم والے لوگ جو کہ قرآن اور سابقہ الہامی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور نمازوں کو قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں اور آخرت پر ایمان لے آتے ہیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجر عظیم تیار کر دیا ہے ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اپنی دلیل اور واضح روشنی قرار دیاہے اور ارشاد فرمایا کہ جو بھی قرآن مجید کو مضبوطی کے ساتھ تھامے گا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے فضل اور رحمت میں داخل فرمائے گا اور اس کو صراط مستقیم پر چلائے گا ۔
اس کے بعد سورت مائدہ ہے اور اس کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے وعدے پورے کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اور ان کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ انہیں کامیابی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیے ۔
اس پارے میں اللہ نے یہ بھی ارشاد فرمایاکہ '' آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی ہے اور اسلام کو بحیثیت دین تمہارے لیے پسند کر لیا ہے۔‘‘امام بخاری ؒ‘ اما�
ساتویں پارے کا خلاصہ
قرآنِ مجید فرقانِ حمید کے ساتویں پارے کے شروع میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے نرم دل اور ایمان شناس عیسائیوں کی جماعت کا ذکر کیا ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کے کلام کی تلاوت کی جاتی ہے تو حقیقت کو پہچاننے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں اور وہ لوگ حق کو پہچاننے کے بعد اس کو قبول کر لیتے ہیں‘ وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے‘ ہمارا نام بھی (اسلام کی)گواہی دینے والوں میں لکھ دے۔ قرآنِ مجید کی یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب کفار کے شر سے بچنے کیلئے مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں اور کافر مسلمانوں کے بارے میں حبشہ کے بادشاہ کو اکسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حبشہ کا نرم دل عیسائی بادشاہ نجاشی جنابِ جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی زبان سے قرآن پاک کی تلاوت سنتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسوبہنا شروع ہوگئے اور اُس نے اپنا شمار اسلام کی گواہی دینے والوں میں کروالیا۔
ساتویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو مخاطب ہو کر کہا کہ اُنہیں پاک چیزوں کو اپنے اوپر حرام نہیں کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے پاک رزق کو کھانا چاہیے اور اس سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انسان کی بلا ارادہ کھائی گئی قسموں پر مواخذہ نہیں کرتے‘ لیکن جب کسی قَسم کو پوری پختگی سے کھایا جائے‘ تو ایسی صورت میں انسان کو اس قَسم کو پورا کرنا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے ان آیات کا نزول فرمایا ہے‘ جن میں صراحت سے شراب کو حرام قرار دیا گیاہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اے ایمان والو! بے شک شراب‘ جوا‘ بت گری اور پانسہ ناپاک اور شیطانی کام ہیں۔ پس‘ تم ان سے بچو‘ تاکہ کامیاب ہوجائو‘ بے شک شیطان جوئے اور شراب کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور عداوت پیدا کرنا چاہتا ہے اور تمہیں اللہ کی یاد اورنماز سے روکنا چاہتا ہے تو کیا تم لوگ باز آجائو گے‘‘ جب ان آیات کا نزول ہوا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے کہا :یا اللہ! ہم رک گئے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے سمندری شکار کو حلال قرار دیا ہے اور حالتِ احرام میں خشکی کے شکار کو منع کیا ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بکثرت سوال کرنے سے بھی روکا ہے۔ کئی مرتبہ کثرتِ سوال کی وجہ سے جائز اشیاء بھی حرام ہو جاتی ہیں۔ اللہ نے اس سورت میں یہ بھی بتلایا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام سے کہا ''کیا آپ کا رب ہمارے لیے آسمان سے دستر خوان کو اتار سکتا ہے؟ عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں کے اس بلا جواز مطالبے پر انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کہا ''اللہ سے ڈر جائو، اگر تم مومن ہو‘‘ حواریوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی اس نصیحت کے جواب میں کہا کہ ''ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور اپنے دلوں کو مطمئن کریں اور ہم جان لیں کہ ہمیں سچ بتایا گیا ہے اور اس پر گواہ رہیں‘‘ عیسیٰ علیہ السلام نے حواریوں کے اصرار پر دعا مانگی: ''اے اللہ، اے ہمارے پروردگار! ہمارے اوپر آسمان سے دستر خوان نازل فرماجو ہمارے اول اور آخر کے لیے عید اور تیری جانب سے ایک نشانی بن جائے اور ہمیں رزق عطافرما اور تو بہت ہی بہتر رزق دینے والا ہے‘‘۔ اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''میں وہ (دستر خوان) تمہارے لیے اتاروں گا پھر جوکوئی تم میں سے اس کے بعد کفر کرے گا تو میں اس کو ایسا عذاب دوں گا جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا ہوگا‘‘۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے نبی کی باتوں کو بلا چون وچراماننا چاہیے۔ جب بھی کبھی اللہ سے نشانی مانگ کر اس کے راستے کو چھوڑا گیا تو اللہ نے چھوڑنے والوں کو بہت برا عذاب دیا۔
سورۃ المائدہ میں اللہ نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جناب عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھیں گے کہ کیاانہوں نے لوگوں کو کہا تھا کہ ان کی اوران کی والدہ سیدہ مریم کی عبادت کی جائے اور انہیں خدا کا بیٹا کہا جائے؟ عیسیٰ علیہ السلام جواب میں کہیں گے: یا اللہ! میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں جسے کہنے کا مجھے حق نہیں۔ میں تو ان کو ہمیشہ یہی کہتا رہا کہ میرے اور اپنے رب اللہ کی عبادت کرو۔ انبیاء کرام نے ہمیشہ اپنی اُمتوں کو توحید کا درس دیا‘ لیکن یہ ان اقوام کی بد نصیبی تھی کہ انبیاء کرام کے راستے کو چھوڑ کر شرک کی دلدل میں اتر گئے۔
سورۃ الانعام
قرآن مجید کی مصحفی ترتیب میں سورۃ المائدہ کے بعد سورہ انعام ہے۔ سورہ انعام کے شروع میں اللہ تبارک و تعالیٰ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جو زمین اور آسمان کا خالق ہے اور جس نے اندھیروں اور اُجالوں کو پیدا کیا لیکن کافر پھر بھی اس کا شریک بناتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ اس نے انسا ن کو مٹی سے پیدا کیا‘ پھر اس کو رہنے کا ایک وقت دیا پھر ایک مخصوص مدت کے بعد اس کو زندہ کیا جائے گا‘ لیکن انسان ہے کہ دوبارہ جی اٹھنے کے بارے میں شک کا شکار ہے۔ اس کے بعد اللہ نے اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ ہی ہے آسمان اور زمین میں جو انسان کے ظاہر اور باطن کو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے‘ جو وہ کماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی ملکیت کی وسعت کا بھی ذکر کیا اور ارشاد فرمایا کہ دن اور رات میں جو کچھ بھی موجود ہے‘ اسی کا ہے اور وہ سننے اور جاننے والا ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اگر اللہ انسان کو کوئی گزند، کوئی ضرر یا کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو اس کو کوئی نہیں ٹال سکتا اور اگر وہ اس کو خیریت، عافیت اور امان سے رکھیں تو بھی وہ ہر چیز پر قادر ہیں‘ یعنی انسان کی حالت کو بدلنا اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام میں یہ بھی بتلایا کہ اہل کتاب کے صاحبِ علم لوگ رسول اللہﷺ کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح کوئی اپنے سگے بیٹے کو پہچانتا ہے‘ اس کے باوجود یہ لوگ ایمان نہ لا کر اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کافروں کے طعن و تشنیع رسول اللہﷺ کو دکھ پہنچاتے تھے۔ اللہ نے اپنے نبی کی ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا کہ یہ ظالم لوگ در حقیقت آپ کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی وسعت کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس غیب کے خزانوں کی چابیاں ہیں اور ان کو ا س کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ خشکی اور سمندر میں جو کچھ بھی موجود ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کو جانتے ہیں اور کوئی پتا جو زمین پر گرتا ہو‘ اللہ تعالیٰ اس کو بھی جانتے ہیں اور کوئی ذرہ جو زمین کے کسی اندھیرے مقام پر پڑا ہے‘ وہ اس کو بھی جانتے ہیں اور ہر خشک و تر سے پوری طرح واقف ہیں۔
اس پارے میں اللہ نے اس امر کا ذکرکیا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آزر اور اپنی قوم کی بت پرستی کی بھر پور طریقے سے مذمت کی۔ بت پرستی کی مذمت کے ساتھ ساتھ آپ نے اجرامِ سماویہ کی حقیقت کو بھی لوگوں پر کھول دیا۔ جگمگ کرتے ستارے‘ چانداور سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر اعلان کیا کہ میں قوم کے شرک سے بری ہوں اور اپنے چہرے کا رخ اس ذات کی طرف کرتاہوں‘ جس نے زمین و آسمان کو بنایا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں شامل نہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ انہیں غیراللہ کے پجاریوں کو گالی نہیں دینی چاہیے کہ یہ لوگ معاذ اللہ جواب میں اللہ کو گالی دیں گے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ آنکھوں کو پاتا ہے‘ مگر آنکھیں اس کو دنیا میں نہیں دیکھ سکتیں؛ تاہم سورۃ القیامہ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ جنتی جنت میں جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کے دیدار کی نعمت سے بھی بہرہ ور ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے،
آمین!
آٹھویں پارے کا خلاصہ
آٹھویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اگر ہم ان پر فرشتے اتار دیتے اور ان سے مردے بات کرنے لگتے اور ہر چیز کو ان کے سامنے لا کھڑا کر دیتے تو بھی وہ ایمان لانے والے نہیں تھے سوائے اس کے کہ اللہ چاہے۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی‘ جب مشرکین مکہ اور کفار عرب نے رسول کریمﷺ سے مختلف طرح کی نشانیوں کو طلب کرنا شروع کیا۔ کبھی وہ کہتے کہ ہمارے اوپر فرشتے اترنے چاہئیں‘ کبھی وہ کہتے کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو ہم اپنے پروردگار کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں اور کبھی وہ کہتے کہ ہمارے آبائو اجداد جو اس دنیا سے چلے گئے ہیں‘ ان کو دوبارہ زندہ کریں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کو کافروں کی سرشت سے آگاہ کیا کہ ان کافروں کی نشانیاں طلب کرنے والی بات کوئی حق پرستی پر مبنی نہیں‘ بلکہ یہ تو صرف اور صرف حق سے فرار حاصل کرنے کے لیے اس قسم کے مطالبات کر رہے ہیں۔
جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بغیر کسی نشانی کے اسلام کو قبول کر لیا جبکہ مکہ کے بہت سے کافر متعدد نشانیوں کو دیکھ کر بھی مسلمان نہ ہوئے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ زمین پر رہنے والوں کی اکثریت کی پیروی کرنے سے انسان گمراہ ہو جاتا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں جس چیز پر غیر اللہ کا نام لیا جائے‘ اُسے کھانا جائز نہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ اللہ نے یہودیوں پر ان کی بغاوت اور سرکشی کی وجہ سے ہر ناخن والا جانور حرام کر دیا تھا اور گائے اور بکری کی پیٹھ پر لگی چربی کے علاوہ باقی چربی کو بھی ان پر حرام کر دیا تھا‘ لیکن یہودیوں کی سرکشی کا عالم یہ تھا کہ وہ چربی بیچ کر کھانا شروع ہو گئے۔ بخاری و مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: ''اللہ کی مار ہو یہود پر جب چربی ان کے لیے حرام کر دی گئی تو اسے پگھلا کر بیچ دیا اور اس کی قیمت کھا گئے‘‘۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اولاد کے قتل کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ وہ لوگ گھاٹے میں ہیں‘جنہوں نے اپنی اولادوں کو بے وقوفی کے ساتھ قتل کر دیا اور اپنی مرضی سے اللہ تعالیٰ کے جائز کیے ہو ئے رزق کو حرام قرار دیا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ جب فصلوں کی کٹائی کا دن آئے‘ اس دن اللہ تعالیٰ کے حق کو ادا کیا کرو۔ جب اللہ تعالیٰ ہر چیز عطا فرماتے ہیں تو اس کا حق بھی بروقت ادا ہونا چاہیے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے رزق کی ان چار بڑی اقسام کا بھی ذکر کیا‘ جو انسانوں پر حرام ہیں۔ پہلا رزق‘ جو انسانوں پر حرام ہے‘ وہ مردار ہے‘ اسی طرح بہتا ہوا خون انسانوں پر حرام ہے‘ اسی طرح خنزیر کا گوشت بھی انسانوں پر حرام ہے اور اسی طرح غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ بھی انسانوں پر حرام ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس غلط عذر کو بھی رد کیا کہ وہ اپنے اور اپنے آبائو اجداد کے بارے میں کہیں گے‘ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے آبائو اجداد ہرگز شرک نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: یہ اور ان سے پہلے لوگ بھی اسی طرح جھوٹ تراشتے رہے۔ اللہ تعالیٰ مزید کہتے ہیں کہ اے نبی! آپ ان کو کہہ دیجئے کہ (جو اللہ نے تحریر کیا ہے) کیا تم اس کو جانتے ہو؟ اگر جانتے ہو تو اس کو ہمارے سامنے پیش کرو۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ لوگ غلطی تو خود کرتے ہیں‘ لیکن خو اہ مخواہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بعض کبیرہ گناہوں کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ شرک نہیں کرنا چاہیے‘ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے‘ اپنی اولاد کو بھوک کے خوف سے قتل نہیں کرنا چاہیے‘ فحاشی چاہے چھپی ہوئی ہو‘ چاہے علانیہ ہو‘ اس کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے‘ کسی کو ناحق قتل نہیں کرنا چاہیے‘ یتیم کے مال کو نا جائز طریقے سے استعمال نہیں کرنا چاہیے‘ ترازو کو صحیح طریقے سے پکڑنا چاہیے‘ جب بھی بات کی جائے عدل سے کرنی چاہیے چاہے قریبی عزیز بھی اس کی زد میں آئیں، اللہ تعالیٰ سے کیے گئے یا اس کے نام پر کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے اور ان تمام نصیحتوں کا بنیا دی مقصد انسانوں میں عقل اور تقویٰ کو پیدا کرنا ہے۔اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بھی بڑی شدت سے مذمت کی ہے‘ جو اپنے دین میں تفرقہ پیدا کرتے اور گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا معاملہ اللہ کے ذمہ ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو ان کے کیے سے آگاہ کرے گا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت کا بھی ذکر کیا ہے کہ جو ایک بُرائی کرے گا‘ اس کو ایک ہی کا بدلہ ملے گا‘ لیکن جو ایک نیکی کرے گا‘ اُسے اس جیسی دس نیکیاں ملیں گی اور انسانوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حکم دیا ہے کہ وہ اعلان فرمائیں کہ بے شک میری نمازیں‘ میری قربانیاں‘ میرا جینا اور میرا مرنا سبھی کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا اور میں سب سے پہلے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنے والا ہوں۔
سورۃ الاعراف
اس کے بعد سورہ اعراف ہے اور اس سورت کے آغاز میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ پیارے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام جو قرآن آپ پر نازل کیا گیا ہے‘ یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ آپ اس کے ذریعے لوگوں کو (اللہ کے عذاب)سے ڈرائیں اور اس میں مومنوں کے لیے نصیحت ہے۔ یہ وحی اس لیے نازل کی گئی ہے کہ آپ اس کی پیروی کریں۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اگلی قوموں کا ذکر فرمایا کہ جب ان پر عذاب آیا تو وہ ایسی گھڑی میں نازل ہوا جب وہ قومیں سو رہی تھیں، یا رات کو اللہ کا عذاب نازل ہوا یا دن کے وقت جب وہ قیلولہ کر رہی ہوتی تھیں‘ یعنی اللہ کا عذاب نے انہیں غفلت میں آن پکڑا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے وزن کا ذکر کیا ہے کہ کل قیامت کو وزن حق اور انصاف کے ساتھ ہو گا تو جس کا پلڑا بھاری ہو گا وہ کامیاب ہو گا اور جس کا پلڑا ہلکا ہو گا‘ تو یہ وہ لوگ ہیں‘ جنہوں نے ہماری آیات کو رد کر کے اپنی ہی جانوں کا نقصان کیا۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بہت بڑے انعام کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زمین پر ٹھہرایا اور ان کے لئے مختلف طرح کے پیشے بھی بنائے اور پھر بھی کم ہی انسان ہیں جو شکر گزار ہیں۔اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مسجدوں میں آنے کے آداب کا بھی ذکر کیا کہ مسجد میں آتے ہوئے انسانوں کو اپنی زینت کو اختیار کرنا چاہیے اور اچھا لباس پہن کر مسجد میں آنا چاہیے۔
اسی سورت میں اللہ تعالیٰ نے جہنم کے مناظر کا بھی ذکر کیا ہے کہ اہل جنت جہنمیوں سے مخاطب ہو کر کہیں گے: ہم پا چکے ہیں‘ جس کا وعدہ ہمارے رب نے کیا تھا، کیا تم کو بھی وہ کچھ مل گیا‘ جس کا تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا؟ تو وہ جواب میں کہیں گے: ہاں! اس پر ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا: اللہ کی لعنت ہو ظالموں پر‘ اسی طرح اہلِ نار جنتیوں سے تقاضا کریں گے کہ جو اللہ نے ان کو پانی اور رزق عطا کیا ہے‘ اس میں سے ان کو بھی دیا جائے تو اہلِ جنت کہیں گے: اللہ نے اس کھانے اور پینے کو اہلِ نار پر حرام کر دیا ہے۔اللہ نے اس پارے میں اصحاب اعراف کا بھی ذکر کیا ہے۔ اصحاب اعراف ایسے لوگ ہوں گے‘ جو جہنم کے عذاب سے محفوظ ہوں گے‘ لیکن اعمال میں کمزوری کی وجہ سے جنت حاصل کرنے میں ناکام ہو جائیں گے۔ ایک مخصوص مدت گزارنے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں داخل فرما دے گا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ خوف اور طمع کے ساتھ اللہ کو پکارتے رہنا چاہیے۔ بے شک اللہ کی رحمت نیکوکاروں کے قریب ہے۔ اس پارے کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ نے ان قوموں کا ذکر کیا ہے‘جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئیں‘ ان کا تفصیلی ذکر سورہ ہود میں ہو گا۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!
نویں پارے کا خلاصہ
نویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الاعراف سے ہوتا ہے۔ آغاز میں حضرت شعیب علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ اُن کی قوم کے لوگ مال کی محبت میں اندھے ہو کر حرام و حلال کی تمیز بھلا چکے تھے۔ اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب اُنہیں پورا تولنے اور ماپنے کا حکم دیا تو انہوں نے ایک دوسرے کو مخاطب ہو کر کہا کہ اگر تم نے شعیب علیہ السلام کی پیرو ی کی تو گھاٹے میں پڑ جائو گے۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ حقیقی خسارہ اور گھاٹا تو شعیب علیہ السلام کو جھٹلانے والوں کے لیے تھا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا کہ اگر بستیوں کے رہنے والے ایمان اور تقویٰ کو اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے آسمان اور زمین سے برکات کے دروازے کھول دیں گے‘ لیکن چونکہ وہ اللہ کے احکامات کو جھٹلاتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ ان پر گرفت کرتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی فرعون کے دربار میں آمد کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب موسیٰ علیہ السلام فرعون کو توحید کی دعوت دینے آئے اور فرعون نے سر کشی کا مظاہرہ کیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اللہ کی عطا کردہ نشانیوں کو ظاہر فرمایا۔ آپ علیہ السلام نے اپنے عصا کو زمین پر گرایا تو وہ بہت بڑا اژدہا بن گیا‘ آپ نے اپنے ہاتھ کو اپنی بغل میں ڈال کر باہر نکالا تو وہ روشن ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی اتنی واضح نشانیوں کو دیکھ کر بھی فرعون اور اس کے مصاحب سرکشی پر تلے رہے اور جناب موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو جادوگر قرار دے دیا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ نے فرعون اور اس کے قبیلے پر مختلف قسم کے عذاب مسلط کیے۔ اللہ تعالیٰ نے کبھی پھلوں کے نقصانات کے ذریعے‘ کبھی خون کی بارش کے ذریعے‘ کبھی جوئوں‘ مینڈکوں اور ٹڈیوں کی بارش کے ذریعے ان پر اپنے عذاب نازل کیے۔ ہر دفعہ آتے ہوئے عذاب کو دیکھ کر آلِ فرعون اپنی اصلاح کا وعدہ کرتے‘ لیکن جب وہ عذاب ٹل جاتا تو دوبارہ نافرمانی پر آمادہ ہو جاتے، یہاں تلک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں ان کو سمندر میں غرق کر دیا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو اپنے سے ہم کلام ہونے کا شرف عطا کیا اور چالیس روز تک آپ سے کلام کرتے رہے۔ اس کلام کے دوران جناب موسیٰ علیہ اسلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا: اے پر وردگار! کیا میں تجھے دیکھ نہیں سکتا؟ تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ نہیں! ایک دفعہ کوہِ طور پر نظر کریں‘ اگر یہ پہاڑ اپنی جگہ جما رہا تو آپ مجھے دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب اپنی تجلیات کو کوہِ طور پر گرایا تو طور ریزہ ریزہ ہو گیا اور جناب موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے۔ جب جناب موسیٰ علیہ السلام ہوش میں آئے تو انہوں نے کہا: اے پر وردگار! آپ کی ذات پاک ہے اس بات سے کہ ان آنکھوں سے آپ کو دیکھا جا سکے۔
موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لیے گئے تو آپ اپنی عدم موجودگی میں جناب ہارون علیہ السلام کو اپنی قوم کے نگران کے طور پر مقرر کر کے گئے تھے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سامری جادوگر نے سونے اور چاندی کا ایک بچھڑا بنا کر اس میں جبرائیل علیہ السلام کے قدموں سے چھونے والی راکھ کو ڈال کر جادو پھونکا تو اس میں سے حقیقی بچھڑے کی طرح آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ جناب موسیٰ علیہ السلا م کی قوم کے لوگوں نے اُسے پوجنا شروع کر دیا۔ ہارون علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کو بہت سمجھایا کہ یہ شرک ہے اور اس سے بچنا چاہیے‘ لیکن ان نادانوں نے جناب ہارون علیہ السلام کی نصیحت کو پس پشت ڈال دیا۔ جناب موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے بعد جب تورات کو لیے ہوئے پلٹے تو اپنی قوم کے لوگوں کو شرک کی دلدل میں دھنسے ہوئے پایا۔ آپ اس منظر کو دیکھ کر اتنا غضبناک ہوئے کہ آپ نے جناب ہارون کی داڑھی کے بالوں کو پکڑ لیا۔ جناب ہارون علیہ السلام نے جناب موسیٰ علیہ السلا م سے کہا کہ اے برادرِ عزیز! میں نے ان کو بہتیرا سمجھایا‘ لیکن انہوں نے میری کسی نصیحت کو قبول نہ کیا۔ میں نے اس لیے زیادہ اصرار نہیں کیا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ میں نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ہے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو آپ نے اپنے اور جناب ہارون کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعا مانگی کہ پروردگار! ان کے اور فاسقوں کے درمیان تفریق پیدا فرما دے۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن والی آزمائش کا بھی ذکر کیا ہے کہ سمندر کے کنارے ایک بستی کے رہنے والے یہودیوں کو اللہ نے ہفتے کو مچھلیوں کے شکار سے منع فرما دیا تھا۔ وہ ہفتے کے دن جال لگا لیتے اور اتوار کو مچھلیاں پکڑ لیتے۔ ان نافرمانوں کو اس بستی کے ایک گروہ نے نیکی کی نصیحت کی جبکہ ایک گروہ غیر جانبدار تھا۔ غیر جانبدار گروہ نے نصیحت کرنے والے گروہ کو کہا: تم ان لوگوں کو سمجھا کر کیا کر لو گے جو ہلاکت یا اللہ کے عذاب کا نشانہ بننے والے ہیں؟ اس پر نصیحت کرنے والی جماعت نے کہا: اس کارِ خیر سے ہمارا عذر ثابت ہو جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ بھی راہِ راست پر آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نافرمانی کرنے والوں کو عذا ب کا نشانہ بنا دیا اور ان کے چہرے اور جسم مسخ کرکے انہیں بندروں کی مانند کر دیا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺکی دو عظیم خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی مذکور تھا۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے اور آپﷺ کی رسالت زمانوں اور علاقوں کی حدود سے بالاتر ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کے خوبصورت نام ہیں اور ہمیں اللہ کو ان ناموں کے ساتھ پکارنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آکر ان سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی؟ اللہ نے کہا کہ آپ ان کو فرما د یجیے کے اللہ کے سوا اس کے وقت کو کوئی نہیں جانتا۔ اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب قرآن مجید کی تلاوت ہو رہی ہو تو اس کو توجہ سے سننا چاہیے اور خاموشی کو اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ توجہ سے قرآن سننے کی وجہ سے انسانوں پر رحم فرمائے گا۔
سورۃ الانفال
سورۃ الاعراف کے بعد سورۃالانفال ہے۔ سورہ انفال میں اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے بدر کے معرکے میں مسلمانوں کی قلیل تعداد کے باوجود ان کو کافروں پر غالب کیا اور ان کی مدد کے لیے ایک ہزار فرشتے اتارے۔ سورت آل عمران میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ نے تین ہزار اور اس کے بعد صبر و استقامت کے مظاہرے کی صورت میں پانچ ہزار فرشتوں کے نزول کا وعدہ فرمایا۔ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ فرشتوں کی مدد تو درحقیقت مومنوں کے لیے ایک بشارت ہے‘ اصل مدد تو اللہ کی نصرت ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اہلِ ایمان کو جب اللہ اور اس کے رسول بلائیں تو ان کو فوراً ان کی پکارکا جواب دینا چاہیے‘ اس لیے کہ ایمان والوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پکار پر عمل پیرا ہو کر ہی زندگی ملتی ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکرکیا کہ جس جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مو جود ہوں یا جس قوم کے لوگ استغفار کرنے والے ہوں ان پر اللہ کا عذاب نہیں آ سکتا‘ یعنی رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد امت مسلمہ کے پاس عذاب سے بچنے کے لیے آج بھی استغفار کا ہتھیار موجود ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
دسویں پارے کا خلاصہ
دسویں پارے کا آغاز سورہ انفال سے ہوتا ہے۔ اس پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے مالِ غنیمت کی تقسیم کا ذکر کیا ہے کہ اس مال غنیمت میں اللہ اور اس کے رسول کا صوابدیدی اختیار پانچویں حصے کا ہے‘ یعنی رسول اللہﷺ کو یہ اختیار حاصل تھا کہ آپ مالِ غنیمت کے پانچویں حصے کو اپنی مرضی کے ساتھ تقسیم کر سکتے تھے۔
دسویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے معرکے کا ذکر کیا ہے کہ شیطان لعین اس معرکے میں انسانی شکل میں موجود تھا اور کافروں کو لڑائی کے لیے اُکسا رہا تھا۔ سراقہ بن مالک کے روپ میں موجود شیطان کافروں کو یقین دلا رہا تھا کہ مسلمان کافروں پر غلبہ نہیں پا سکتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے جبریل امین علیہ السلام کی قیادت میں فرشتوں کی جماعتوں کو اتارا تو شیطان فرشتوں کی جماعت کو دیکھ کر میدانِ بدر سے فرار ہو گیا۔ کفارِ مکہ نے اس سے پوچھا کہ سراقہ! تم تو ہمیں فتح کی نوید سنا رہے تھے‘ اب کہاں بھاگے جا رہے ہو‘ اس پر شیطان نے جواب دیا: میں وہ دیکھتا ہوں‘ جو تم نہیں دیکھتے‘ مجھے اللہ کا خوف دامن گیر ہے اور اللہ کی پکڑ بڑی شدید ہے۔
اس سورۃ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی متواتر بدعہدیوں اور خیانت کے بعد اس آیت کا نزول فرمایا کہ اگر آپ کو کسی قوم کی جانب سے خیانت کا ڈر ہو تو اس کا معاہدہ لوٹا کر حساب برابر کر دیجئے، بے شک اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس سورہ میں اللہ نے مسلمانوں کو اس بات کی تلقین کی ہے کہ کافروں سے مقابلے کے لیے ہر ممکن طاقت اور گھوڑوں (فوجی ساز و سامان) کو تیار رکھیں۔ اس تیاری کی وجہ سے اللہ کے دشمن اور مسلمانوں کے دشمن مرعوب ہوں گے اور وہ (پوشیدہ) دشمن بھی جن کو مسلمان نہیں جانتے اور اللہ کے راستے میں مسلمان جو خرچ کریں گے‘ ان کو اس کا پورا پورا اجر ملے گا۔اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ مسلمان افرادی اعتبار سے کمزور بھی ہوں تو کفار پر غالب رہتے ہیں۔ ایک دور میں ایک مسلمان دس پر غالب آتا تھا۔ گزرتے دور میں مسلمان کی طاقت میں کمی آ گئی ہے‘ لیکن پھر بھی ایک مسلمان ہمیشہ دو کافروں پر بھاری رہے گا۔
سورۃ التوبہ
سورۃ الانفال کے بعد سورہ توبہ ہے۔ سورہ توبہ قرآن مجید کی واحد سورت ہے‘ جس سے پہلے بسم اللہ مو جود نہیں ہے۔ اس کی دو وجوہ بیان کی گئی ہیں؛ اول تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ کو غضب میں نازل کیا اور دوسری یہ کہ یہ سورہ گزشتہ سورہ انفال کا ہی حصہ ہے۔ سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جو شخص نماز باقاعدگی سے ادا کرتا ہے اور زکوٰۃ صحیح طریقے سے دیتا ہے‘ ایسا شخص مسلمانوں کی جماعت سے منسلک ہے اور دینی اعتبار سے ان کا بھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بعض کافر اس بات پر اتراتے تھے کہ ہم حرم کی صفائی کرتے ہیں اور حاجیوں کو ستو پلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حرم اور حاجیوں کی خدمت سے کہیں زیادہ بہتر اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانا اور اس کی خوشنودی کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تمہارے باپ‘ تمہارے بیٹے‘ تمہارے بھائی‘ تمہاری بیویاں‘ تمہارے قبیلے‘ تمہارے مال جو تم اکٹھا کرتے ہو‘ تمہاری تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو اور وہ گھر جن میں رہنا تمہیں مرغوب ہے‘ تم کواللہ اور اس کے رسول کے راستے میں کیے جانے والے جہاد سے زیادہ پسند ہیں تو انتظار کرو جب تک کہ اللہ کا عذاب نہیں آ جاتا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے حنین کے معرکے کا بھی ذکر کیا ہے۔ مسلمانوں کا ہمیشہ یہ طرزِ عمل رہا کہ وہ قلتِ وسائل اور افرادی قوت میں کمی کے باوجود اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم پر ثابت قدم اور اللہ کی غیبی نصرت و حمایت کے طلبگار رہے‘ لیکن حنین کا معرکہ ایسا تھا جس میں مسلمانوں کی تعداد اور افرادی قوت بہت زیادہ تھی۔ اس تعداد کی کثرت اور فراوانی نے مسلمانوں کے دلوں میں ایک فخر کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ جب مسلمان کافروں کے آمنے سامنے ہوئے تو ہوازن کے تجربہ کار تیر اندازوں نے یک لخت مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے؛ تاہم نبی کریمﷺ پورے وقار اور شجاعت کے ساتھ میدانِ جنگ میں ڈٹے رہے۔ رسول کریمﷺ کی استقامت کی وجہ سے مسلمان بھی دوبارہ حوصلے میں آ گئے اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کی۔ مالک کائنات نے مسلمانوں کو کفار پر غلبہ عطا فرما دیا اور مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات راسخ ہو گئی کہ جنگوں میں فتح وسائل کی کثرت اور فراوانی کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم اور اس کی مدد و نصرت کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں اور نصرانیوں کے برے عقیدے کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہودی ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ عزیرعلیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں اور عیسائی ہرزہ سرائی کرتے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: یہ باتیں انہوں نے اپنی طرف سے گھڑی ہیں اور اللہ کی ان پر مار ہو جو یہ جھوٹ بولتے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو وعید سنائی ہے جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں‘ مگر اس کو راہِ خدا میں خرچ نہیں کرتے۔ قیامت کے دن سونے اور چاندی کو آگ میں پگھلانے کے بعد ان کی پیشانیوں کو‘ پہلوئوں کو اور پشتوں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ اس چیز کے سبب ہے جو تم اکٹھا کرتے تھے۔ پس اکٹھا کرنے کا مزا چکھ لو۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے مصارفِ زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا کہ زکوٰۃ کے آٹھ مصارف ہیں۔ اس پر فقیروں کا حق ہے‘ مساکین کا حق ہے‘ زکوٰۃ اکٹھی کرنے والوں کا حق ہے‘ اسلام کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والوں کا حق ہے‘ قیدیوں کا حق ہے‘ تاوان کے تلے دبے ہوئے لوگوں کا حق ہے‘ مسافر کا حق ہے اور اللہ کے راستے میں اس کو خرچ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ منافق مرد اور عورت ایک دوسرے میں سے ہیں اور یہ بھی بتلایا کہ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں‘ یعنی غلط عقائد اور اعمال والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھی اور صحیح عقائد اور اعمال والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہوتے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو اس بات کی تلقین کی کہ انہیں کافروں اور منافقوں کے ساتھ جہاد کرنا چاہیے۔ کافروں کے ساتھ جہاد تلوار کے ذریعے اور منافقوں کے ساتھ دلائل کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بعض منافقین کے اعمال کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اللہ سے وعدہ کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں مال دے گا تو ہم اس کے راستے میں خرچ کریں گے‘ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو مال دے دیا تو وہ بخل کرنا شروع ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس نے ایسے لوگوں کے دلوں میں نفاق لکھ دیا‘ اس دن تک جب ان کی اللہ کے ساتھ ملاقات ہو گی۔
اس سورۃ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے غزوہ تبوک کے موقع پر فتنے کا عذر پیش کر کے پیچھے رہ جانے والے اس منافق کا بھی ذکر کیا جس نے ایک عذر پیش کر کے جہاد میں شرکت کرنے سے معذرت کی تو رسول کریمﷺ نے اس کو رکنے کی اجازت دے دی، اس پر اللہ نے واضح کر دیا کہ درحقیقت بہانہ بنا کر پیچھے رہنے والے لوگ فتنے کا شکار ہو چکے ہیں اور اللہ نے جہنم کو منکروں کیلئے تیار کر رکھا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: (یہ منافق آپ کے گستاخ ہیں)، اِن کے لئے آپ کا استغفار کرنا ان کے کسی کام نہ آئے گا کیونکہ اگر آپ ان کے لئے ستر بار بھی استغفار کریں (تو ان کی شقاوتِ قلبی کی وجہ سے) اللہ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دسویں پارے میں بیان کردہ مضامین کو سمجھنے اور ان سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے، آمین!
گیارہویں پارے کا خلاصہ
گیارہویں پارے کا آغاز سورہ توبہ سے ہوتا ہے۔ سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے مہاجر اور انصار صحابہ کرامؓ میں سے ایمان پر سبقت لے جانے والے صحابہ کرام کا ذکر کیا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہو ااور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اپنی جنتوں کو تیار کر دیا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور یہ بہت بڑا اجر ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا بھی ذکر کیا کہ مدینہ میں رہنے والے بہت سے لوگ منافق ہیں اور بہت سے لوگ منافقت کی موت مر رہے ہیں؛ اگر چہ رسول اللہﷺ ان کو نہیں جانتے تھے مگر اللہ تعالیٰ ان سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ایسے لوگوں کو عام لوگو ں کے مقابلے میں دُگنا عذاب دوں گا۔
گیارہویں پارے میں اللہ نے ان منا فقین کا ذکر کیا ہے‘ جو بغیر کسی سبب کے جنگِ تبوک میں شریک نہ ہوئے۔ ان منافقوں کے ذہن میں یہ بدگمانی موجود تھی کہ مسلمان تبوک کے محاذ پر شکست سے دوچار ہوں گے۔ اللہ نے اہلِ ایمان کی مدد فرمائی اور اپنے فضلِ خاص سے ان کو فتح یاب فرما دیا۔ اللہ تعالیٰ نے پیشگی اپنے نبیﷺ کو اس بات کی اطلاع دی تھی کہ آپﷺ ان کے پاس پہنچیں گے تو وہ آپ کے سامنے عذر پیش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیبﷺ پر اس وحی کو نازل کیا کہ آپ انہیں کہیں کہ بہانے نہ بنائو‘ ہم تم پر یقین نہیں کریں گے، اللہ نے تمہاری خبریں ہم تک پہنچادی ہیں اور آئندہ بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ تمہاری حرکتوں پر نظر ر کھیں گے‘ پھر تم اس ذات کی طرف لوٹائے جائو گے‘ جو حاضر اورغائب سب کا جاننے والا ہے تو وہ تمہیں تمہارے اعمال کی اصلیت سے آگاہ کرے گا۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکرکیا ہے کہ نیکی کرنے والوں نے اگر اللہ کی راہ میں کوئی چھوٹی بڑی رقم خرچ کی یا کسی وادی (سفر) کو طے کیا تو اس عمل کو ان کے نامہ اعمال میں لکھ دیا گیا ہے تاکہ اللہ تعالی ان کے کاموں کا ان کو اچھا بدلہ عطا فرمائے۔
رسول اللہﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر صحابہ کرامؓ سے مالی تعاون کا تقاضا کیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سات سو اونٹ مع سامان‘ اللہ کے راستے میں خرچ کر دیے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مال کا نصف حصہ اللہ کے راستے میں وقف کر دیا جبکہ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ رسول اللہﷺ نے پوچھا: گھر میں کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ تو جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: گھرمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کو چھوڑ کر آیا ہوں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کے بدلے جنت کا سودا کر لیا ہے، وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں‘ اللہ کے دشمنوں کو مارتے ہیں اور خود بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس تجارت کو انتہائی فائدہ مند تجارت قرار دیا ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کے بعض امتیازی اوصاف کا بھی ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین توبہ کرنے والے‘ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے‘ اللہ کی حمد کرنے والے‘ زمین میں پھرنے والے‘ اللہ کے سامنے جھکنے والے‘ اس کی بارگاہ میں سجدہ کرنے والے‘ نیکی کا حکم دینے والے‘ برائی سے روکنے والے اور اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے تھے اور ایسے ہی مومنوں کے لیے خوش خبری ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے دینی علم کو بھی فرض کفایہ قرار دیا اور ارشاد ہوا کہ تمام مومنوں کے لیے ضروری نہیں کہ اپنے آپ کو دینی تعلیم کے لیے وقف کریں بلکہ مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر گروہ میں سے کچھ لوگ اپنے آپ کو دینی تعلیم کے لیے وقف کریں تاکہ جب اپنی قوم کی طرف واپس پلٹیں تو ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرا سکیں۔
اس سورہ مبارکہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی صفات کا ذکرکیا کہ تم میں سے ایک رسول تمہارے پاس آیا جو کافروں پر زبردست ہے‘ مسلمانوں پر حریص ہے کہ وہ جنت میں چلے جائیں اور مومنوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس‘ اگر وہ رسول اللہﷺ کی ذات اور ان کے پیغام سے رو گردانی کریں تو رسول اللہﷺ اعلان فرما دیں کہ میرے لیے اللہ کافی ہے‘ جس کے سوا کوئی معبود نہیں اس پر میرا بھروسہ ہے اور وہ عرش عظیم کا پروردگار ہے۔
سورہ یونس
اس کے بعد سورہ یونس ہے اورسورہ یونس میں اللہ تعالی نے فرعون کا ذکر کیا ہے کہ اس کے خوف کی وجہ سے بنی اسرائیل کے لوگ ایمان لانے سے کتراتے تھے۔ بنی اسرائیل کی مرعوبیت دیکھ کرحضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا مانگی ''اے ہمارے پروردگار! تو نے فرعون اور اس کے مصاحبوں کو دنیا کی زینت اور مال عطا کیا ہے‘ تاکہ وہ لوگوں کو تیرے راستے سے برگشتہ کرے۔ اے پروردگار! تو ان کے مال اور دولت کو نیست و نابود فرما اور ان کے دلوں کو سخت بنا‘ تاکہ اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں‘‘۔ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کی دعاکو قبول فرما لیا اور ہر طرح کا عذاب دیکھنے کے باوجود بھی فرعون ہدایت کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا یہاںتک کہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے لوگوں کو لے کر نکلے تو اس نے اپنے لشکر سمیت ان کا تعاقب کیا۔
جب موسیٰ علیہ السلام معجزانہ طور پر سمندرکو پار کر گئے تو اللہ نے سمندر کی لہروں کو آپس میں ملا دیا۔ فرعون سمندرکے وسط میں غوطے کھانے لگا۔ اس حالت میں فرعون نے پکار کر کہا ''میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں‘ اس کے سوا کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اورمیں فرمانبرداروں میں سے ہوں‘‘۔ اللہ نے فرعون کے ایمان کو قبول کرنے سے انکارکر دیا اور کہا کہ کیا اب ایمان لائے ہو؟ اس سے پہلے تک تو تُو نافرمانی اور فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ پس آج ہم تیرے جسم کو سمندرسے نکال لیں گے تا کہ تو اپنے بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے اللہ کے عذاب کی نشانی بن جائے اور بہت سے لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں۔ اس واقعے سے ہمیں نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ انسان کو دنیا اور اقتدار کے نشے میں اندھے ہوکر اپنے انجام اور آخرت کو فراموش نہیں کر دینا چاہیے اس لیے کہ اللہ کی پکڑ بڑی شدید ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کیا انسانوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ انہی میں سے ایک مرد پر وحی کو نازل کیا جائے‘ جو اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے ان کو ڈرائے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کو روشنی عطا کی اور چاند کی منازل کو بھی طے کیا تا تم اس کے ذریعے سالوں اور مہینوں کا حساب لگائو۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ بے شک زمین اور آسمان کی تخلیق اور رات اور دن کے آنے جانے میں اللہ سے ڈر نے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو مخاطب ہو کر کہا کہ اے لوگو! تم تک تمہارے رب کی نصیحت آ پہنچی ہے‘جو شفا ہے‘ سینے کی بیماریوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ہے اہل ایمان کے لیے۔ اے حبیبﷺ! اعلان فرمائیں‘ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے اہل ایمان کو خوش ہو جانا چاہیے اور یہ قرآن ہر اس چیز سے بہتر ہے‘ جسے تم اکٹھا کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ''خبردار! اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم‘‘ اور ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ ایمان والے اور تقویٰ کو اختیار کرنے والے ہوں گے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے قوم یونس علیہ السلام کا بھی ذکر کیا ہے کہ جب یونس علیہ السلام اپنی قوم کی نافرمانیوں پر ناراض ہوکر ان کو خیرباد کہہ دیتے ہیں تو وہ اللہ کی بارگاہ میں آکر باجماعت اپنے گناہوں پر معافی مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اجتماعی توبہ اور استغفار کی وجہ سے ان کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ جب بھی اللہ تعالیٰ کسی قوم پر ناراض ہو جائیں اور وہ اللہ کی خوشنودی کے لیے اجتماعی توبہ کا راستہ اختیارکرے تو اللہ تعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف فرما دیتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی بارگاہ میں اجتماعی توبہ کرنے کی توفیق دے‘ تا کہ ہماری اجتماعی مشکلات کا خاتمہ ہو سکے۔ اللہ ہمیں قرآن پاک میں مذکور مضامین سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے، آمین!
بارہویں پارے کا خلاصہ
اس پارے کا آغاز سورہ ہود سے ہوتا ہے۔سورہ ہود کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکر کیا ہے کہ زمین پر چلنے والا کوئی چوپایہ ایسا نہیں ‘جس کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ ہو‘ اور اللہ تعالیٰ اس کے ٹھکانے کو اور اس کے پلٹنے کی جگہ کو نہ جانتے ہوں اور یہ ساری تفصیل لوح ِمحفوظ میں محفوظ ہے ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے ان اقوام کا ذکر کیا‘ جواپنی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنیں۔ حضرت نوح کی قوم بتوں کی پوجا کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے نبی نوح نے اپنی قوم کو شرک سے باز رہنے کی تلقین کی ‘مگر انہوں نے جناب نوح ں کا شدید مذاق اڑایا ۔اللہ تعالیٰ نے جناب نوح کی مدد فرمائی۔آسمان اور زمین سے بارش اور سیلاب کی شکل میں پانی جاری کردیا ‘جس کی زد میں جناب نوح کے بیٹے اور نافرمان بیوی سمیت تمام کافر آگئے ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کا ذکر کیا کہ قوم ِعاد بھی قوم ِنوح کی طرح شرک کی بیماری میں مبتلا تھی۔ جناب ہود اُن کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے‘ لیکن انہوں نے جناب ہود کی ایک نہ سنی۔ قوم عاد کو اپنی طاقت پر گھمنڈ تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ایک طاقتور طوفانی ہوا کو ان پر مسلّط کر دیا‘ جس نے قوم ہود کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور اپنی طاقت پر ناز کرنے والے زمین پر یوں پڑے تھے ‘جس طرح کٹے ہوئے درخت کی شاخیں ہوتی ہیں ۔
قوم ِعاد کے بعد اللہ تعالیٰ نے قومِ ثمود کا ذکر کیا ۔قومِ ثمود کے لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کو فراموش کر چکے تھے۔ قومِ ثمود کے لیے اللہ نے اپنی ایک نشانی کو ظاہر فرمادیا۔اللہ کے حکم سے بستی کی ایک بڑی پہاڑی پھٹی‘ جس سے ایک اونٹنی نکلی۔ اس اونٹنی نے باہر نکلتے ہی بچہ دیا ‘ مگر بستی کے لوگوں نے اتنے بڑے معجزے کو دیکھ کر ایمان لانے کی بجائے اونٹنی کے پیروں کو کاٹ دیا۔اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوئے اور ان پر ایک چنگھاڑ کو مسلط کر دیا۔ فرشتے نے چیخ ماری اور اس چیخ کی وجہ سے بستی کے لوگوں کے بھیجے اور دماغ پھٹ گئے ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوم ِلوط کا ذکر کیا ۔قومِ لوط کے لوگ ہم جنس پرستی کی بیماری کا شکار تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے قومِ لوط کے پاس عذاب والے فرشتے بھیجے اور ان فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ بدکاروں کی اس بستی پر عذاب کو مسلّط کر دیں۔ فرشتوں نے بستی کو اپنے پروں پر اٹھاکر زمین پر پھینک دیا اور پوری بستی کو پتھروں سے کچل دیا۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قومِ مدین کا ذکر کیا‘ جو کہ شرک کی برائی کے ساتھ ساتھ ناجائز منافع خوری کا شکار تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر اسی طرح کی چیخ کو مسلّط کر دیا‘ جس چیخ کے ساتھ قوم ثمود تباہ ہوئی تھی ۔
سورہ ہود کے بعد سورہ یوسف ہے ۔سورہ یوسف میں اللہ تعالیٰ نے جناب یوسف کے واقعہ کو بیان کیا ہے ۔جناب یوسف نے بچپن میں ایک خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے‘ سورج اور چاند ان کو سجدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے والد گرامی جناب یعقوبؑ سے اپنا یہ خواب بیان کیا‘ تو جناب یعقوبؑ نے فرمایا کہ اے بیٹے‘ آپ نے اپنا خواب اپنے بھائیوں کو بیان نہیں کرنا‘ اس لیے کہ وہ سننے کے بعد حسد کا شکار ہو جائیں گے۔
ادھر یہ معاملہ ہو رہا تھا‘ اُدھر جناب یوسف کے سوتیلے بھائی آپس میں مشورہ کر رہے تھے کہ ہم جوان ہیں‘ لیکن بابا یعقوبؑ‘ جناب یوسفؑ ہی سے پیار کرتے ہیں‘ کیوں نہ کسی بہانے سے بھائی یوسف کو بابا سے علیحدہ کردیا جائے ‘تاکہ ہم ان کے منظور نظر بن سکیں ۔بھائی اکٹھے ہو کر جناب یعقوب ؑ کے پاس آئے اور کہا کہ آپ بھائی یوسف کو ہمارے ساتھ کیوں روانہ نہیں کرتے‘ وہ ہمارے ساتھ جنگل کی طرف جائے اور ہم ان کے ساتھ کھیلیں۔ جناب یعقوب ؑ نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم اپنے کاموں میں مصروف ہو جائواور کوئی بھیڑیا اس کو نہ کھا جائے۔بھائیوں نے کہاکہ بابا ہم جوان ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمار ے ہوتے ہوئے کوئی بھیڑیا بھائی یوسفؑ کو کھاجائے۔ جناب یعقوب ؑ نے یقین دہانیوں پر جناب یوسف کو اپنے بیٹوں کے ساتھ روانہ کر دیا ۔جناب یوسف کے بھائیوں نے جناب یوسف کو ایک کنوئیں میں پھینک دیا اور رات کے وقت روتے ہوئے جنا ب یعقوب ؑ کے پاس آگئے کہ بھیڑیا جناب یوسف کو کھا گیا ہے ۔اس پر جناب یعقوب ؑ نے کہا کہ میں صبر کروں گا‘ اللہ کو پتا ہے کہ حقیقت کیا ہے ۔
جناب یوسف جس کنوئیں میں موجود تھے‘ وہاں سے ایک قافلے والوں کا گزر ہوا‘ انہوں نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا‘ جناب یوسف کنوئیں سے باہر نکل آئے ۔اہل قافلہ مصر جا رہے تھے‘ انہوں نے جناب یوسف کو مصر کے ایک بڑے گھرانے میں فروخت کردیا ۔جناب یوسف کی خوبصورتی اور وجاہت کو دیکھ کر اس گھر کے مالک نے اپنی اہلیہ کو کہا کہ جناب یوسف کو اپنا بیٹا بنالیں گے‘ امید ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائیں گے۔ جناب یوسف علیہ السلام جب جوان ہوئے‘ تو گھر کی مالکن ان پر بُری نظر رکھنے لگی اور ایک دن اس نے ان کو بُرائی کی دعوت دی‘ جس کو جناب یوسف نے ٹھکرا دیا ۔اس عورت نے جناب یوسف پر بُرائی کا الزام لگا یا‘ لیکن اللہ نے محل میں ایک بچے کو قوت گویائی عطا کر کے جناب یوسف کو اس الزام سے بری کروادیا۔
عزیز مصر کی بیوی فتنے کا شکار تھی ‘اس نے جناب یوسف کو مصر کی دیگر عورتوں سے مل کر فتنے کا نشانہ بنانا چاہا ‘تو جناب یوسف نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی کہ اللہ! مجھے برائی سے بچا کر جیل میں پہنچا دے۔اللہ نے جناب یوسف کی دعا کو قبول فرما کر ان کو جیل میں پہنچادیا۔ جیل میں آپ کی ملاقات دو قیدیوں سے ہوئی۔ ان دونوں قیدیوں کو آپ نے توحید کی دعوت دی اور دعوت دینے کے بعد ان دونوں قیدیوں نے اپنے خواب‘ حضرت یوسف کو بتلائے۔ ایک قیدی نے خواب دیکھا کہ وہ انگوروں کو نچوڑ رہا ہے‘ جبکہ دوسرے قیدی کو خواب آیا کہ اس کے سر پر روٹیاں ہیں ‘جن سے پرندے کھانا کھا رہے ہیں۔ حضرت یوسف نے پہلے تو قیدیوں کوتوحید کی دعوت دی اور اس کے بعد جناب یوسف نے فرمایا کہ ایک آدمی بادشاہ کا ساقی بنے گا ‘جبکہ دوسرے کو پھانسی ہوگی ‘جس آدمی نے بادشاہ کا ساقی بننا تھا‘ اس کو جناب یوسف نے کہا کہ بادشاہ کو بتلانا کہ جیل میں ایک بے گناہ قیدی پڑا ہے‘ لیکن آزاد ہونے والا قید ی یہ بات بھول گیا اور جناب یوسف کئی برس تک جیل میں قید رہے ۔
اسی اثنا میں بادشاہ وقت کو خواب آیا کہ سات پتلی گائیں سات موٹی گایوں کو کھا رہی ہیں اور سات سر سبز بالیاں ہیں اور سات خشک بالیاں ہیں۔ اس پر بادشاہ کے ساقی کو جناب یوسف کی یاد آئی۔ اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت !جیل خانے میں ایک بہت بڑا عالم فاضل قیدی ہے‘ جو اس کی صحیح تعبیر بتلا سکتا ہے۔جناب یوسف سے جب تعبیر پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ آنے والے سات سال قحط سالی کے ہو ں گے اور اس کے بعد خوشحالی اور ہریا لی ہو گی ۔جناب یوسف کی تعبیر سننے کے بعد بادشاہ نے کہا کہ انہیں جیل سے بلایا جائے۔ جناب یوسف نے کہا کہ جب تک میری اعلانیہ بے گناہی ثابت نہیں ہو گی‘ میں جیل سے نہیں نکلوں گا۔ جناب یوسف کے مطالبے پر عزیز مصر کی بیوی نے برملا جناب یوسف کو پا کدامن قرار دیا۔ جس کے بعد جناب یوسف جیل سے باہر آنے پر آمادہ ہو گئے ۔
جناب یوسف کا باقی واقعہ تیرہویں پارے میں بیان ہو گا۔ اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید فرقان حمید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس میں بیان کردہ واقعات سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے۔(آمین!)
تیرہویں پارے کا خلاصہ
تیرہویں پارے کا آغاز بھی سورہ یوسف سے ہوتا ہے۔ جناب یوسف ؑجب جیل سے آزاد ہوگئے تو بادشاہ نے جناب یوسف ؑکو اپنے قریبی مصاحبین میں شامل کر لیا ۔آپ ؑ ابتدا ئی طور پر وزیر خزانہ اور بعد میں عزیز مصر کے منصب پر فائز ہوگئے ۔ جناب یوسفؑ نے زرعی نظام کو بڑی توجہ سے چلایا اور خوشحالی کے سات سالوں میں مستقبل کے لیے بہترین پلاننگ کی یہاں تک کہ جب پوری دنیا میں قحط سالی عام ہو گئی تو مصر کی معیشت انتہائی مضبوط اور مستحکم ہوچکی تھی۔قحط سالی اپنے عروج پر پہنچی تو غلے کے حصول کے لیے دنیا بھر سے قافلے مصر پہنچنے شروع ہوگئے ۔جناب یعقوبؑ کے بیٹوں نے بھی مصر کا رخ کیا ۔جب وہ عزیز مصر کے محل میں داخل ہوئے تو جناب یو سف ؑ اپنے بھائیوں کو پہچان گئے ‘جب کہ آپ کے بھائی آپ سے غافل تھے ۔ آپ نے باتوں باتوں میں اپنے بھائیوں سے کہا کہ اگلی مرتبہ اپنے چھوٹے بھائی بنیا مین کو بھی ساتھ لانا‘ اگر تم اپنے چھوٹے بھائی کو نہ لائے تو تمہیں غلے سے کچھ بھی نہیں ملے گا اور ساتھ ہی جو پونجی ان کے بھائی غلہ خریدنے کے لیے لائے تھے اس کو بھی اپنے بھائیوں کے سامان میں ڈال دیا ۔
جب جناب یوسف ؑ کے بھائی جناب یعقوبؑ کے پاس پہنچے تو انہوں نے عزیز مصر کی بہت زیادہ تعریف کی اور ساتھ ہی یہ بھی بتلایا کہ عزیز مصر کی خواہش تھی کہ ہم بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لے کر جائیں۔جناب یعقوب ؑ نے جواب میں کہا کہ کیا میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں ‘جس طرح میں نے اس سے قبل یوسفؑ کے معاملے میں تم پر اعتماد کیا تھا۔اس پر جناب یعقوبؑ کے بیٹے خاموش ہو گئے۔جب سامان کھولا گیا تو اس میں سے غلے کے ساتھ ساتھ پونجی بھی برآمد ہو گئی۔اس پر یعقوب ؑ کے بیٹوں نے کہا دیکھیے بابا عزیز مصر نے تو ہماری پونجی بھی ہمیں دے دی ہے ۔اب‘ جناب یعقوب ؑ نے کہا کہ میں بنیامین کو تمہارے ساتھ اس صورت میں روانہ کروں گا کہ تم اس کی حفاظت کی قسم کھائو۔بیٹوں نے اپنے والد گرامی جناب یعقوب ؑ کے سامنے حلف دیا تو اپنے زمانے کے نبی جناب یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ جب مصر میں داخلے کا وقت آئے تو علیحدہ علیحدہ دروازوں سے داخل ہونا ۔
جب یوسف ؑ کے بھائی دوبارہ ان کے پاس پہنچے تو جناب یوسفؑ نے جناب بنیامین کو علیحدہ ایک طرف کر لیا اور ان سے کہا کہ میں آپ کا بھائی یوسف ؑہوں ۔اس کے بعد یوسف ؑ نے اپنا پیالہ جناب بنیامین کے سامان میں رکھوا دیا ۔جب قافلہ روانہ ہونے لگا تو اعلان کروایا گیا کہ قافلے والو تم چور ہو۔جناب یعقوبؑ کے بیٹوں نے جواب میں کہا کہ اللہ کی قسم ہم زمین پر فساد پھیلانے نہیں آئے اور نہ ہی ہم چور ہیں ۔اس پر ا ن سے کہا گیا کہ اگر تم میں سے کسی کے سامان سے بادشاہ کا پیالہ برآمد ہوگیا تو اس کی کیا سزا ہو گی؟ جواب میں جناب یوسف ؑ کے بھائیوں نے کہا کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جو مجرم ہوگا وہ خود اپنے کیے کا ذمہ دار ہو گا۔ جب سامان کی تلاشی لی گئی تو جناب بنیا مین کے سامان میں سے پیالہ برآمد ہو گیا ۔جناب یوسف ؑ کے بھائیوں نے اس موقع پر بڑے عجیب ردعمل کا اظہار کیااور کہا کہ اگر بنیامین نے چوری کی ہے تو اس سے قبل ان کے بھائی یوسفؑ نے بھی چوری کی تھی۔ اس پر جناب یوسف ؑنے کہا کہ جو تم الزام تراشی کرتے ہو اس کی حقیقت سے اللہ تعالیٰ بخوبی آگاہ ہیں۔ جناب یوسف ؑ کے بھائیوں نے یہ بھی کہا کہ آپ ہم بھائیوں میں سے کسی ایک کو پکڑلیں۔ جناب یوسف ؑ نے کہا کہ معاذ اللہ ہم کسی مجرم کی جگہ کسی دوسرے کو کس طرح پکڑ سکتے ہیں۔ جناب یوسف ؑکے ایک بھائی نے کہا کہ میں تو واپس نہیں جا ئوں گا یہاں تک کہ بابا یعقوبؑ مجھے اجازت نہیں دیں گے یا اللہ تعالیٰ میرے حق میں کوئی فیصلہ نہیں فرمادیتے ۔
جناب یوسف ؑ کے بھائی جناب یعقوب ؑ کے پاس پہنچے اور ان کو جناب بنیامین کی گرفتاری کی خبر دی تو جناب یعقوبؑ نے بلند آواز سے جناب یوسف ؑکا نام لیا اور آپ اتنی شدت سے روئے کہ آپ کی بینائی بھی گل ہو گئی۔ جناب یعقوبؑ نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ آپ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں اور جناب یوسف ؑ اور ان کے بھائی کو تلاش کریں۔
اب جناب یوسف ؑ کے بعض بھائی دوبارہ مصر آئے تو حالت بدلی ہوئی تھی ۔غربت اور مفلوک الحالی نے ان کو بری طرح متاثر کیا ہوا تھا‘ انہوں نے جناب یوسف ؑ کے پاس آکر اپنی غربت کی شکایت کی اورصدقے کا تقاضاکیا تو جناب یوسفؑ نے پوچھا کیاآپ بھول گئے جو آپ نے اپنے بھائی یوسفؑ کے ساتھ کیا۔ بھائیوں نے کہا کہ آپ یوسفؑ کو کیسے جانتے ہیں کہیں آپ ہی تو یوسفؑ نہیں؟کہا میں یوسف ؑہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان کیا‘ بے شک جو صبر اور تقویٰ کو اختیار کرتا ہے تو اللہ نیکو کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔ اس موقع پر جناب یوسفؑ کے بھائی انتہائی شرمسار ہوئے اور انہوں نے آپ سے معافی چاہی تو جناب یوسف ؑ نے کہا کہ تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا اور اللہ بھی تمہیں معاف کرے۔ جناب یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کو اپنی قمیض اتار کر دی اور کہا کہ جناب یعقوبؑ کے چہرے پر ڈالنا ان کی بینائی واپس آجائے گی اور آئندہ ان کو بھی اپنے ہمراہ لانا۔
جناب یعقوب ؑکے بیٹے جب آپ کی قمیص لے کر روانہ ہوئے ‘تو جناب یعقوب ؑ نے اپنے گھر میں موجود بیٹوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ مجھے بیٹے یوسف ؑکی خوشبو آرہی ہے۔ اس پر بیٹوں نے کچھ بے ادبی والے الفاظ کہے جناب یعقوبؑ خاموش ہو گئے۔ جب مصر سے آپ کے بیٹے آئے اور انہوں نے آپ کے چہرے پر قمیض ڈالی تو جناب یعقوب کی بینائی واپس آگئی۔ جناب یعقوب کے گھر میں موجود بیٹوں نے ان سے معافی طلب کی۔آپ نے اپنے بیٹوں کو معاف کر دیا۔ سب اہل خانہ مصر کو روانہ ہوئے۔ جب جناب یوسف ؑ کے پاس پہنچے تو آپ نے جناب یعقوبؑ کو تخت پر بٹھالیا۔ جناب یعقوب ؑ اور ان کے گیارہ بیٹے جناب یوسف ؑ کے سامنے جھک گئے۔ اس شریعت میں تعظیمی سجدہ جائز تھا جبکہ مسلمانوں کے لیے تعظیمی سجدہ منع ہے۔ حضرت یوسف ؑ نے اس موقع پر پروردگار عالم کا شکرادا کیا اور دعا مانگی کہ ا ے میرے پروردگار ! مجھے اسلام پر موت دینا اور صالحین کے ساتھ ملا دینا۔ جناب یوسف ؑ کا واقعہ عروج وزوال کی ایک داستان اور صبر اور استقامت کی دستاویز ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ صبر کا پھل ضرور دیتا ہے‘ چاہے اس میں کچھ دیر ہو ۔
اس کے بعد سورۃ الرعد ہے۔ آغازمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں جتلاتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے انواع و اقسام کے پھل پیدا کیے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے ہر قوم میں ایک ہادی مبعوث فرمایا۔ یہ بھی بتلایا کہ بجلی کی کڑک اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کرتی ہے اور فرشتے اللہ کے خوف سے کانپتے ہیں ۔فرمایا کہ دلوں کا امن اور سکون اللہ کے ذکر اور اس کی یاد سے حاصل ہو تا ہے ۔
اس کے بعد سورہ ابراہیم ہے۔جناب ابراہیم ؑ نے اپنی اولاد کی دنیاوی اوراخروی فلاح وبہبود کے لیے بہت سی دعائیں مانگیں اور ہر وقت ا للہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے جذبات سے معمور رہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت میں ہمارے لیے یہ درس اور سبق موجود ہے کہ ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیے اور کسی بھی وقت اس کی حمد کو نہیں چھوڑنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن مجید میں بیان کردہ مضامین سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے۔ (آمین!)
تیرہویں پارے کا آغاز بھی سورہ یوسف سے ہوتا ہے‘ جبکہ سورہ ابراہیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کے حوالے سے ہمارے لیے یہ درس اور سبق موجود ہے کہ ہمیں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہنا چاہیے اور کسی بھی وقت اس کی حمد کو نہیں چھوڑنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن مجید میں بیان کردہ مضامین سے سبق حاصل کرنے کی توفیق دے۔(آمین)
چودھویں پارے کا خلاصہ
چودھویں پارے کا آغاز سورۃ الحجر سے ہوتا ہے۔ چودھویں پارے کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ کافر رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے کہ اگر آپ سچے ہیں تو ہمارے لیے فرشتوں کو کیوں لے کر نہیں آتے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فرشتوں کو تو ہم عذاب دینے کے لیے اتارتے ہیں اور جب فرشتوں کا نزول ہو جاتا ہے تو اقوام کو مہلت نہیں دی جاتی۔ قرآنِ مجید کے نزول پر شک اور اعتراض کرنے والے کافروں کو مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ بے شک ہم نے ہی ذکر (مراد فرقانِ حمید) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی تخلیق کے مقاصد بھی بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے آسمانِ دنیا کو ستاروں سے مزیّن کیا اور ان کو شیطان کے شر سے محفوظ کیا مگر جو آسمان کی بات کو چرا کر زمین پر لانا چاہے تو اس کو اللہ تعالیٰ شہاب ثاقب سے نشانہ بناتے ہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کی طرف روانہ کیے جانے والے فرشتوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ فرشتے جناب لوط علیہ السلام کی طرف جانے سے قبل جناب ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے۔ انہوں نے جناب ابراہیم علیہ السلام کو ایک عالم فاضل بیٹے کی بشارت دی اور انہیں بتلایا کہ ہم ایک مجرم قوم کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ اس قوم میں سے لوط علیہ السلام کے گھرانے کے علاوہ ہر شخص کو ہلاک کر دیا جائے گا بشمول لوط علیہ السلام کی بیوی کے کہ جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ وہ ضرور مجرموں کے ساتھ پیچھے رہ جائے گی۔ اللہ کے فرشتوں نے لوط علیہ السلام کی پوری بستی کو بلندی پر لے جا کر الٹ دیا اور ان پر پتھروں کی بارش برسائی اور پتھر ہر مجرم کو نشانہ بنا کر لگ رہے تھے۔
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی اعلان فرمایا کہ جو رسول اللہﷺ کا استہزا کرتے ہیں تو ان سے نمٹنے کے لیے خود اللہ کی ذات کافی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے ہر دشمن کو ذلت اور عبرت کا نشان بنا دیا۔ ابوجہل‘ عتبہ‘ شیبہ‘ ولید‘ امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط رسول اللہﷺکا استہزا کرتے تھے۔ اللہ نے میدانِ بدر میں ان کو حسرت ناک انجام سے دوچار کیا۔ ابولہب کے ایک بیٹے عتیبہ نے رسول اللہﷺ کا استہزا کیا تو نبی کریمﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ! اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مسلط کر دے۔ نبی کریمﷺ کی دعا پوری ہوئی اور ایک کاروباری سفر میں جنگل میں پڑائو کے دوران ایک شیر آیا اور اس بدبخت کو کھا گیا۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ رسول اللہﷺ کو سات بار بار پڑھی جانے والی آیات اور قرآن عظیم یعنی سورہ فا تحہ عطا کی گئی ہے۔
سورۃ النحل
سورۃ الحجر کے بعد سورۃ النحل ہے۔ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے پر چاہتے ہیں‘ روح الامین کو فرشتوں کے ہمراہ نازل فرماتے ہیں تا کہ وہ لوگوں کو ڈرائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے انواع و اقسام کی سواریوں کو پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں‘ خچر وں اور گدھوں کو پیدا کیا اور وہ کچھ پیدا فرمایا جس کو انسان نہیں جانتا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے دو خدائوں کے تصور کی بھی نفی کی اور کہا انسانوں کو دو الٰہ نہیں پکڑنے چاہئیں‘ بے شک وہ اکیلا اللہ ہے۔ ثنویت کا عقیدہ درحقیقت آتش پرستوں میں موجود تھا اور وہ دو خدائوں کی بات کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدے کو رد کیا اور ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا کہ اگر زمین و آسمان میں دو الٰہ ہوتے تو ہر طرف فساد ہوتا‘ یعنی دونوں معبودوں کے احکامات آپس میں ٹکراتے اور کہیں اعتدال نہ ہوتا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی توجہ مویشیوں کی طرف بھی مبذول کروائی اور کہا کہ چوپایوں میں انسانوں کے لیے عبرت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے پیٹوں سے خالص دودھ پلاتے ہیں جو خون اور گوبر کے درمیان سے نکلتا ہے لیکن اس میں نہ خون کی رنگت ہوتی ہے اور نہ فضلے کی گندگی‘ اور فلٹریشن کا یہ غیر معمولی پلانٹ خالقِ کائنات کی کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان کیا کہ پرندے کو فضائے بسیط میں اللہ تعالیٰ ہی سہارا دیتے ہیں۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے گھروں کو ہمار ے لیے جائے سکونت بنایا ہے جو سکون انسان کو اپنے گھر میں حاصل ہوتا ہے وہ کسی دوسرے مقام پر حاصل نہیں ہوتا۔
اس پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ پر قرآن مجید کو اس لیے نازل فرمایا تاکہ وہ لوگوں کو بیان کریں جو ان پر نازل کیا گیا ہے‘ گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین اور آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنتیں قرآنِ مجید کے بیان اور وحی الٰہی کی حیثیت ہی رکھتی ہیں۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی ہرزہ سرائی کا ذکر کیا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ پر قرآن اللہ کی طرف سے نازل نہیں ہوا بلکہ محمدﷺ روم کے ایک نومسلم (مراد صہیب رومیؓ) سے باتیں سن کر اس کو آگے لوگوں کو سناتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی طرف سے اللہ نے خود جواب دیا کہ جس آدمی کے بارے میں ان کا یہ گمان ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سکھلاتا ہے‘ وہ تو عجمی ہے جبکہ رسول اللہﷺ پر نازل ہونے والے قرآن کی زبان تو فصیح عربی مبین (صاف صاف) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اللہ نے قرآن مجید کو روح القدس کے ذریعے رسول اللہﷺکے قلب پر نازل کیا تاکہ مومنوں کو ثابت قدم رکھا جائے اور اس میں مسلمانوں کیلئے ہدایت اور بشارت ہے۔
اس سورۃ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سبا کی بستی کا بھی ذکر کیا ہے کہ جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے رزق اور امن کی جملہ نعمتوں سے نواز رکھا تھا لیکن وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری اور نافرمانی کے کاموں میں مشغول ہو گئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان سے امن کو چھین کر خوف اور رزق کو چھین کر بھوک میں انہیں مبتلا کر دیا تھا۔ اس واقعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قوموں کے امن اور معیشت کا تعلق اللہ تبارک وتعالیٰ کی فرمانبرداری کے ساتھ ہے اور جب کوئی قوم اللہ کی نافرمانی اور ناشکری کا ارتکاب کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو بدامنی اور بھوک میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بے شک ابراہیم علیہ السلام اکیلے ہی امت تھے۔ وہ اللہ کے تابع فرمان اور یکسو مسلمان تھے انہوں نے کبھی بھی شرک نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو قبول کر لیا تھا اور ان کو سیدھے راستے پر چلا دیا تھا۔
اس پارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دعوت و تبلیغ کا طریقہ بھی بتلایا کہ دعوت دین کا کام بڑی حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ ہونا چاہیے‘ بے شک اللہ کو پتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹکا ہوا اور کون ہدایت پر ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اعدائے دین کی تکلیفوں پر صبر کرنے کو اچھا عمل قرار دیا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ صبر اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر یقین رکھ کر ہی ہو سکتا ہے۔
پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بے شک اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں اور نیکوکاروں کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل کرنے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ڈر اور نیکی کے راستے پر استقامت درکار ہے‘ جس انسان کو یہ دو چیزیں حاصل ہو جائیں گی‘ یقینا اس کو اللہ کی تائید بھی حاصل ہو جائے گی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے، آمین!
پندرھویں پارے کا خلاصہ
پندرھویں پارے کا آغاز سورہ بنی اسرائیل سے ہوتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی‘ جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں‘ بے شک وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
رسول کریمﷺ جبرائیل امین علیہ السلام کی معیت میں بیت المقدس کی عمارت میں داخل ہوئے‘ جہاں آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء کرام صف باندھے ہوئے موجود تھے۔ رسول اللہﷺ نے مصلیٰ امامت پر کھڑے ہو کر نماز کی امامت فرمائی اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے آپﷺ کی امامت میں نماز ادا کی اور یوں کائنات کے لوگوں کو یہ بات سمجھائی گئی کہ رسول اللہﷺ صرف آنے والوں کے امام نہیں‘ بلکہ جانے والوں کے بھی امام ہیں۔
جب رسول اللہﷺ سفر معراج سے واپس آئے تو ابوجہل نے جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا کوئی انسان ایک رات میں بیت المقدس کا سفر کر کے واپس آ سکتا ہے؟ تو جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا ممکن نہیں۔ ابوجہل نے کہا: جس کو آپ نبی مانتے ہیں‘ انہوں نے اس سے بھی بڑی بات کی ہے کہ وہ بیت المقدس اور اس کے بعد آسمانوں کی سیر کر کے واپس آئے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر رسول اللہﷺ نے ایسا کہا ہے تو پھر یقینا درست کہا ہے‘ اس لیے کہ رسول اللہﷺ کی کوئی بات کسی بھی حالت میں غلط نہیں ہو سکتی۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ یہ قرآنِ مجید نیک اعمال کرنے والے مومنوں کے لیے بشارت ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے‘ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہیے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے‘ اگر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کو اُف بھی نہیں کہنا چاہیے اور نہ ان کو جھڑکنا چاہیے اور ان کو اچھی بات کہنی چاہیے اور ان کے سامنے محبت کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکانا چاہیے اور یہ دعا مانگنی چاہیے کہ پروردگار! ان پر رحم کر‘ جس طرح وہ بچپن میں مجھ پر رحم کرتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سورۃ میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ قرابت داروں‘ مساکین اور مسافروں کے حق کو ادا کرنا چاہیے اور فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے، بے شک فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا ناشکرا ہے۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کا بھی ذکر کیا کہ جو خود تو بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے اور ان کی پیدائش کو اپنے لیے باعثِ عار سمجھتے ہیں مگر دوسری جانب یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنایا ہوا ہے یعنی ایک تو وہ اللہ کی اولاد بناتے اور اس کے بعدا ولاد بھی وہ بناتے‘ جس کو خود قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کیا تمہارے رب نے تمہارے لیے بیٹے خاص کر دیے ہیں اور فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنا لیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ تم ایک بہت بڑی بات کہہ رہے ہو۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے امام کے نام سے بلائیں گے‘ یعنی جس کی پیروی انسان کرتا ہے‘ اسی کی نسبت سے انسان کو بلایا جائے گا۔ اس سورہ میں فجر کے وقت قرآن مجید کی تلاوت کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنا باعثِ برکت ہے اور اس وقت فرشتے قرآن سننے کو حاضر ہوتے ہیں۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو تہجد کی نماز ادا کرنے کا حکم دیا کہ یہ نماز نبی کریمﷺ پر امت کے مقابلے میں لازم تھی اور اس کا سبب یہ بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کو قیامت کے روز مقامِ محمود عطا فرمائیں گے۔ اس سورہ کے آخر میں جا کر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو چاہے اللہ کہہ کر پکارو چاہے رحمن کہہ کے پکارو‘ اللہ تعالیٰ کے سب اچھے اچھے نام ہیں‘ اس کو جس نام سے چاہو پکارا جا سکتا ہے۔
سورۃ الکہف
سورہ بنی اسرائیل کے بعد سورہ کہف ہے۔ سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید بشارت دیتا ہے نیک عمل کرنے والے مسلمانوں کو کہ ان کے لیے بڑے اجر کو تیار کر دیا گیا ہے اور ڈراتا ہے ان لوگوں کوکہ جنہوں نے کہا کہ اللہ نے بیٹا بنایا ہوا ہے‘ اس میں عیسائیوں اور یہودیوں کو ڈرایا گیا ہے‘ جو کہ عیسیٰ علیہ السلام اور عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں نہ تو ان کے پاس علم ہے اور نہ ان کے آبائواجداد کے پاس علم تھا اور یہ بات گھڑی ہوئی ہے پس یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔
سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے بعض مومن نوجوانوں کا ذکر کیا ہے جو اپنے وقت کے بے دین بادشاہ کے شر اور فتنے سے بچنے کے لیے ایک غار میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کے اظہار کے لیے انہیں تین سو نو برس کے لیے سلا دیا اور اس کے بعد جب وہ بیدار ہوئے تو آپس میں بات چیت کرنے لگے کہ ہم کتنا سوئے ہوں گے‘ ان کا خیال یہ تھا کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ سوئے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے واقعات بیان کر کے درحقیقت توجہ آخرت کی طرف مبذول کرائی ہے کہ جو اللہ تین سو نو برس تک لوگوں کو سلا کر بیدار کر سکتا ہے کیا وہ قبروں سے مردہ وجودوں کو برآمد نہیں کر سکتا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کا بھی ذکر کیا۔ ہوا کچھ یوں کہ جناب موسیٰ علیہ السلام ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے اجتماع میں موجود تھے کہ آپ علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے تو جناب موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ اس وقت سب سے بڑا عالم میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بہت بڑا مقام عطا کیا تھا‘ لیکن یہ جواب اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو کہا کہ دو دریائوں کے سنگم پر چلے جائیں وہاں پر آپ کی ملاقات ایک ایسے بندے سے ہو گی جس کو میں نے اپنی طرف سے علم اور رحمت عطا کر رکھی ہے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام دو دریائوں کے سنگم پر پہنچتے ہیں تو آپ کی ملاقات جناب خضر علیہ السلام سے ہوتی ہے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام نے جناب خضر علیہ السلام سے پوچھا کہ اگر میں آپ کے ہمراہ رہوں تو کیا آپ رشد وہدایت کی وہ باتیں جو آپ کے علم میں ہیں مجھے بھی سکھلائیں گے؟ جناب خضر علیہ السلام نے جواب میں کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے اور آپ ان باتوں کی بابت کیونکر صبر کریں گے جن کو آپ جانتے ہی نہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے جناب خضر علیہ السلام کو صبر کی یقین دہانی کرائی تو دونوں اکٹھے چل پڑے۔ کچھ چلنے کے بعد آپ ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔ جنہوں نے ان دونوں سے کرایہ بھی وصول نہیں کیا مگر جب اترنے لگے تو خضر علیہ السلام نے کشتی میں سوراخ کر دیا۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کو یہ بات پسند نہ آئی کہ جس کشتی میں سفر کیا اس میں سوراخ کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کام کر دیا؟ جناب خضر علیہ السلام نے کہا کہ کیا میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے‘ جناب موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ آپ میرے بھول جانے پر مواخذہ نہ کریں اور نہ ہی میرے سوالات پر تنگی محسوس کریں۔ جناب خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام پھر چل دیئے‘ کچھ آگے جا کر ایک لڑکا نظر آیا تو جناب خضر نے بچے کو قتل کر ڈالا‘ جناب موسیٰ علیہ السلامسے نہ رہا گیا، انہون نے پھر جناب خضر علیہ السلام کے عمل پر اعتراض کیا۔ اس کے بعد کیا ہوا یہ جاننے کے لیے اسی مضمون پر سولہویں پارے میں کچھ بحث کریں گے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن پاک پڑھنے‘ سمجھنے اور اس میں مذکور مضامین سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق بخشے، آمین!
سولہویں پارے کا خلاصہ
سولہویں پارے کا آغاز بھی سورۃ الکہف سے ہوتا ہے۔ پندرھویں پارے کے آخر میں جناب موسیٰ علیہ السلام کی جناب خضر علیہ السلام سے ملاقات کا ذکر ہوا تھا‘ جناب موسیٰ علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام کی جانب سے کشتی میں سوراخ کرنے اور پھر ایک بچے کو قتل کر دینے کے عمل پر بالکل مطمئن نہ تھے۔ اس لیے انہوں نے اس پر اعتراض کیا۔ جناب خضر علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہا کہ کیا میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے؟ جناب موسیٰ علیہ السلام نے فیصلہ کن انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اب اگر میں نے کوئی سوال کیا تو آپ مجھے اپنے سے علیحدہ کر دیجئے گا اس لیے کہ اب مزید سوال کرنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔ جناب خضر اور موسیٰ علیہم السلام اکٹھے آگے بڑھتے ہیں‘ حتیٰ کہ ایک بستی میں جا پہنچتے ہیں‘ بستی کے لوگ بڑے بے مروت تھے‘ انہوں نے ان سے کھانا مانگا مگر بستی والوں نے دو معزز مہمانوں کی کوئی خاطر تواضع نہ کی۔ اسی بستی میں ایک جگہ ایک دیوار گرنے والی تھی‘ جناب خضر اس دیوار کی مرمت شروع کر دیتے ہیں۔ جب دیوار کی مرمت مکمل ہو گئی اور جناب خضر علیہ السلام نے وہاں سے چلنے کا ارادہ کیا تو جناب موسی علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام کا معاوضہ وصول کر سکتے تھے‘ اس سے ہم کھانا کھا لیتے۔ جنابِ خضر علیہ السلام نے کہا کہ اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی کا وقت آ پہنچا ہے لیکن پہلے میں آپ کو ان تمام کاموں کی تعبیر سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کر سکے۔ حضرت خضر نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو بتلایا کہ کشتی میں میرے سوراخ کرنے کا سبب یہ تھا کہ جس ساحل پر جاکر کشتی رکنی تھی‘ وہاں پر ایک جابر بادشاہ کی حکومت تھی جو ہر بے عیب کشتی پر جبراً قبضہ کر لیتا ہے‘ میں نے اس کشتی میں سوراخ کر دیا تا کہ کشتی کے مسکین مالک بادشاہ کے ظلم سے بچ جائیں۔ جس بچے کو میں نے قتل کیا‘ وہ بڑا ہو کر خود تو گنہگار بنتا ہی‘ اپنے والدین کے ایمان کے لیے بھی خطرہ بننے والا تھا‘ اس بچے کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے والدین کو ایک نیک اور صالح بچہ عطا فرمائیں گے، جہاں تک تعلق ہے دیوار کی مرمت کا، تو وہ دیوار ایک ایسے گھر کی تھی جو بستی کے دو یتیم بچوں کی ملکیت ہے، اُن کا باپ ایک نیک آدمی تھا اور اس دیوار کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا اور خدائے کائنات چاہتا تھا کہ جب بچے جوان ہو جائیں تو پھر اپنے خزانے کو نکالیں‘ اگر دیوار گرنے سے خزانہ ظاہر ہو جاتا تو اسے بستی والے لوٹ لیتے۔ اور جو کچھ بھی میں نے کیا‘ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم پر کیا۔ یہ واقعہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مکمل علم اللہ کی ذات کے پاس ہے اور وہ جتنا کسی کو دینا چاہتا ہے‘ عطا کر دیتا ہے؛ اگرچہ جناب موسیٰ علیہ السلام اولوالعزم رسول تھے‘ لیکن اللہ نے بعض معاملات کا علم جناب خضر علیہ السلام کو عطا فرمایا جن سے جناب موسیٰ علیہ السلام واقف نہ تھے۔ اس کے بعد سورہ کہف میں جنابِ ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج کا قصہ بیان ہوا ہے کہ ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج سے بچائو کے لیے پگھلے ہوئے تانبے اور لوہے سے ایک مضبوط حفاظتی دیوار بنا دی‘ سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توانائیوں کو دنیا کی زیب و زینت کے لیے وقف اور صرف کرنے والے لوگوں کے اعمال کو بدترین اعمال قرار دیا اور فرمایا کہ وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ بہترین کاموں میں مشغول ہیں۔ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں ایسے لوگ میری ملاقات اور نشانیوں کا انکار کرنے والے ہیں اور ایسے لوگوں کے اعمال برباد ہو جائیں گے اور قیامت کے دن ان کا کوئی وزن نہیں ہو گا۔
سورہ مریم
سورہ کہف کے بعد سورہ مریم ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی معجزاتی پیدائش کا ذکر کیا ہے۔ جناب زکریا علیہ السلام سیدہ مریم کے کفیل اور خالو تھے۔ جب انہوں نے سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کے پاس بے موسمی پھل دیکھے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی: اے پروردگار! تو مجھے بھی صالح اولاد عطا فرمادے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب زکریا علیہ السلام کی فریاد کو سن کر ان کو بڑھاپے میں جناب یحییٰ علیہ السلام سے نوازا۔ اسی طرح جناب مریم سلام اللہ علیہا کے پاس جناب جبریل علیہ السلام آتے ہیں اور ان کو ایک صالح بیٹے کی بشارت دیتے ہیں۔ آپ کہتی ہیں کیا میرے ہاں بیٹا پیدا ہو گا جبکہ میں نے تو کسی مرد کی خلوت کو بھی اختیار نہیں کیا۔ جبریل امین کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو پھر وہ کام وسائل و اسباب کا محتاج نہیں رہتا۔ وہ کُن کہتا ہے تو چیزیں رونما ہو جاتی ہیں۔ سیدہ مریم سلام اللہ علیہا کے ہاں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں تو سیدہ مریم لوگوں کے طعن و تشنیع کے خوف سے بے قرار ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے دل کو مضبوط فرماتے ہیں اور ان کو حکم دیتے ہیں کہ جب آپ کی ملاقات کسی انسان سے ہو تو آپ نے کہنا ہے کہ میں نے رحمن کے لیے روزہ رکھا ہوا ہے‘ اس لیے میں کسی کے ساتھ کلام نہیں کروں گی۔ جب آپ بستی میں داخل ہوتی ہیں تو بستی کے لوگ آپ کی جھولی میں بچے کو دیکھ کر کہتے ہیں: اے ہارون کی بہن! اے عمران کی بیٹی! نہ تو تمہارا باپ برا آدمی تھا اور نہ تمہاری ماں نے خیانت کی تھی‘ یہ تم نے کیا کر دیا؟ حضرت مریم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جانب اشارہ کیا۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے مریم سلام اللہ علیہا کی گود میں سے آواز دی: میں اللہ کا بندہ ہوں‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ گود میں لیٹے بچے کی آواز سن کر لوگ خاموش ہو جاتے ہیں۔
سورہ طہٰ
سورہ مریم کے بعد سورہ طہٰ ہے۔ سورہ طہٰ میں اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی کوہ طور پر اپنے ساتھ ہونے والی ملاقات کا ذکر کیا اور یہ بتایا کہ جب موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا کہ موسیٰ علیہ السلام آپ کے ہاتھ میں کیا ہے؟ جناب موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ یہ میری لاٹھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو اپنی چھڑی زمین پر پھینکنے کا حکم دیا۔ جب چھڑی زمین پر گری تو بہت بڑے اژدھے کی شکل اختیار کر گئی اور جناب موسیٰ علیہ السلام خوف زدہ ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو عصا پکڑنے کا حکم دیا اور کہاکہ اسے پکڑ لیں‘ یہ دوبارہ اپنی شکل میں واپس آ جائے گی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے سامنے جا کر تبلیغ کرنے کا حکم دیا۔ جناب موسیٰ علیہ السلام نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ اے میرے پروردگار میرے سینے کو کھول دے، میرے معاملے کو آسان کر دے، میری زبان سے گرہ کو دور کر دے تاکہ لوگ میری بات کو صحیح طرح سمجھ سکیں اور میرے اہل خانہ میں سے جناب ہارون کو میرا مددگار بنا دے۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی دعا کو سن لیا اور جناب ہارون علیہ السلام کو آپ کا نائب بنا دیا۔ آپ دربارِ فرعون میں آئے تو فرعون نے اپنی قوم کی حمایت حاصل کرنے کے لیے آپ سے سوال کیا کہ میری قوم کے وہ لوگ جو ہم سے پہلے مر چکے ہیں‘ آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ جناب موسیٰ علیہ السلام کا ذہن علم و حکمت سے پُر تھا، آپ نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ ان کا علم میرے پروردگار کے پاس ہے اور میرا پروردگار نہ کبھی بھولا ہے اور نہ کبھی گمراہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو دریا میں غرق کر دیا اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات دی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو اپنی ملاقات کے لیے بلایا۔ جب جناب موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو رہے تھے تو قوم موسیٰ نے ان کی عدم موجودگی میں سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی۔ موسیٰ علیہ السلام جب واپس پلٹے تو اپنی قوم کو شرک کی دلدل میں اترا دیکھ کر انتہائی غضبناک ہوئے اور جناب ہارون علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ نے اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیں کی؟ جناب ہارون علیہ السلام نے کہا کہ میں نے ان پر سختی اس لیے نہیں کی کہ کہیں یہ لوگ منتشر نہ ہو جائیں۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو انہوں نے سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کو آگ لگا کر اس کی راکھ کو سمندر میں بہا دیا اور اس جھوٹے معبود کی بے بسی اور بے وقعتی کو بنی اسرائیل پر ثابت کر دیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن مجید میں مذکور واقعات کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!
ستــرہـویـں پـــارے کا خـــلاصـــہ
📖سترہویں پارے کا آغاز سورۃ الانبیاء سے ہوتا ہے۔ سورہ انبیاء میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ لوگوں کے حساب و کتاب کا وقت آن پہنچا ہے لیکن لوگ اس سے غفلت برت رہے ہیں۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے دین سمجھنے کا طریقہ بھی بتلایا کہ اگر کسی شے کا علم نہ ہو تو اہلِ علم سے اس بارے میں سوال کر لینا چاہیے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ اس نے زمین اور آسمان کو کھیل تماشے کے لیے نہیں بنایا، اگر اس نے کھیل ہی کھیلنا ہوتا تو وہ کسی اور طریقے سے بھی یہ کام کر سکتا تھا۔
🌊اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اس نے ہر چیز کو پانی کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا کہ اللہ انسانوں کو اچھے اور برے حالات سے آزماتا ہے۔ جب حالات اچھے ہوں تو انسان کو شکرادا کرنا چاہیے اور جب حالات برے ہوں تو انسان کو صبر کرنا چاہیے۔
⏳اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انسانوں کے اعمال کو تولنے کے لیے میزان عدل قائم کریں گے اور اس میزان میں ظلم والی کوئی بات نہیں ہو گی اور جو کچھ اس میں ڈالا جائے گا وہ انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہو گی۔
📜اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کی جوانی کے اس واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے اپنے والد اور قوم سے کہا کہ یہ مورتیاں کیا ہیں‘ جن کی تم عبادت کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ اور داداؤں کو ان کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ تم اور تمہارے باپ کھلی گمراہی میں تھے۔ انہوں نے کہا: کیا تم واقعی ہمارے پاس حق لے کر آئے ہو یا یونہی مذاق کر رہے ہو؟ تو ابراہیم علیہ السلام نے ان کی اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تمہارا رب آسمان اور زمین کا رب ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں اس بات کے حق ہونے کی گواہی دیتا ہوں، اللہ کی قسم جب تم لوگ پیٹھ پھیر کر چلے جائو گے تو میں تمہارے بتوں کے خلاف ضرور کارروائی کروں گا۔
⬅️پس ابراہیم علیہ السلام نے ان کی عدم موجودگی میں بت کدے میں داخل ہوکر بتوں کو توڑ ڈالا۔ جب قوم کے لوگ بت کدے میں داخل ہوئے تو انہوں نے بتوں کو ٹوٹا ہوا دیکھا۔ انہوں نے کہا: جس نے ہمارے بتوں کا یہ حال بنایا ہے وہ یقینا ظالم آدمی ہے۔ لوگوں نے کہا: ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) نامی ایک نوجوان کو ان بتوں کے بارے میں باتیں کرتے سنا تھا۔ انہوں نے کہا: تم اسے سب کے سامنے لاؤ تاکہ لوگ اسے دیکھیں۔ جب انہیں بلایا گیا تو لوگوں نے پوچھا: اے ابراہیم (علیہ السلام) کیا تم نے ہمارے بتوں کا یہ حال بنایا ہے؟ انہوں نے کہا: اس بڑے بت نے یہ کیا ہو گا‘ اگر یہ بت بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھ لو۔
⬅️ پھر انہوں نے اپنے دل میں اس بات پر غور کیا اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے‘ حقیقت میں تم لوگ ہی ظالم ہو۔ مگر پھر بھی وہ حقیقت کو قبول کرنے سے انکاری ہو گئے اور کہنے لگے کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ بت بولتے نہیں۔ جناب ابراہیم علیہ السلام نے کہا: تو کیا تم لوگ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی نقصان۔ تف ہے تم پر اور تمہارے ان معبودوں پر جن کی اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ اس واضح دعوتِ توحید پر بستی کے لوگ بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ جناب ابراہیم (علیہ السلام) کو جلا دو اور اگر اپنے معبودوں کی مدد کر سکتے ہو‘ تو کرو۔
🔥حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلانے کے لیے آگ کو بھڑکایا گیا۔ جب آگ خوب بھڑ ک اٹھی تو ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی ''حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل‘‘ میرے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارسازہے۔
جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا تو اللہ نے فرمایا:
اے آگ! تُو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: انہوں نے جناب ابراہیم علیہ السلام کے خلاف سازش کرنا چاہی تو ہم نے انہیں بڑا خسارہ پانے والا بنا دیا۔
📙اس سورہ میں اللہ نے جناب داؤد اور سلیمان علیہم السلام کی حکومت کا اور ایوب علیہ السلام کے صبر کا ذکر بھی کیا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام شدید بیماری کے باوجود اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایوب علیہ ا لسلام کی دعا قبول کرکے آپ کی تمام مشکلات کو دور فرما دیا۔
📘اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں جناب یونس علیہ السلام کے واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ آپ جب مچھلی کے پیٹ میں غم کی شدت سے دوچار تھے تو آپ علیہ السلام نے پروردگار عالم کو ندا دی کہ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ اس کی ذات پاک ہے اس تکلیف سے جو مجھ کو پہنچی ہے اور بے شک یہ تکلیف مجھے اپنی وجہ سے آئی ہے، تو اللہ نے جناب یونس علیہ السلام کی فریاد کو سن کر ان کے دکھوں کو دور فرما دیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی فرما دیا کہ جو کوئی بھی حالتِ غم میں جناب یونس علیہ السلام کی طرح اللہ کی تسبیح کرے گا تو اللہ جناب یونس علیہ السلام ہی کی طرح اس کے غم کو دور فرمائیں گے۔
🤍سورۃ الانبیاء میں انبیاء کرام کا ذکر ہوا کہ جب بھی انہیں کوئی مشکل پڑی یا کوئی حاجت پیش آئی تو انہوں نے اللہ کو پکارا اور اللہ نے ان کی پکار کو نہ صرف شرفِ قبولیت بخشا بلکہ ان کی تکلیف و مصیبت کو ان پر سے دور بھی کیا اور ان کے مناصب اور عظمت میں اضافہ فرمایا۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے منصب جلیلہ کا بھی ذکر کیا کہ
اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو دو جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
📓سورۃ الانبیاء کے بعد سورہ حج ہے۔ سورہ حج کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرایا اور ارشاد فرمایا کہ بے شک قیامت کا زلزلہ بہت بڑا ہے۔ اور اس زلزلے کی وجہ سے حاملہ اپنے حمل کو گرا دے گی اور دودھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو پرے پھینک دے گی اور لوگ حالتِ نشہ میں نظر آئیں گے یعنی اپنے حواس کھو بیٹھیں گے حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب انتہائی شدید ہو گا۔
⛰️اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے معرکے کا بھی ذکر کیا ہے کہ جس میں ایک ہی قبیلے کے لوگ آپس میں ٹکرا گئے تھے اور یہ جنگ نسل، رنگ یا علاقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقیدۂ توحید کی بنیاد پر ہوئی تھی۔
🕋اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کے لیے خانہ کعبہ کی جگہ کو مقرر فرما دیا اور ان سے کہا کہ آپ کسی بھی چیز میں میرا شریک نہ ٹھہرایے اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے شرک اور بت پرستی سے پاک رکھیے اور آپ لوگوں میں حج کا اعلان کریں تاکہ وہ آپ کے پاس پیدل چل کر اور دبلی اونٹنیوں پر سوار ہوکر دور دراز علاقوں سے آئیں۔ وہ اپنے لیے دینی اور دنیوی فوائد کو حاصل کر سکیں اور گنتی کے مخصوص دنوں میں ان چوپایوں کو اللہ کے نام پر ذبح کریں جو اللہ نے بطور روزی انہیں دیے ہیں۔ پس تم لوگ اس کا گوشت خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔
🤍اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کی قبولیت کے لیے تقویٰ کو شرط قرار دیا کہ اللہ تعالیٰ کو جانوروں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تعالیٰ کو انسان کے دل کا تقویٰ پہنچتا ہے۔
🔝اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ان مظلوم مسلمانوں کو جہاد کی اجازت بھی دی ہے کہ جن کو بغیر کسی جرم کے ان کے گھروں سے ایمان کی وجہ سے نکال دیا گیا تھا۔
⬅️اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعے شرک کی تردید کی ہے کہ جن معبودانِ باطل کو لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں ان کی کیفیت یہ ہے کہ وہ سارے جمع ہو کر ایک مکھی کو بھی نہیں بنا سکتے اور مکھی بنانا تو دور کی بات ہے اگر مکھی ان سے جبراً کوئی چیز چھین کر لے جائے تو اس کو واپس بھی نہیں پلٹا سکتے۔
🤲🏻اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآنِ مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے.
آمیـــن ثـــم آمیـــن
اٹھارہویں پارے کا خلاصہ
سورہ مومنون
اٹھارہویں پارے کا آغاز سورہ مومنون سے ہوتا ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے اس گروہ کا ذکر کیا ہے جو جنت کے سب سے بلند مقام یعنی فردوس کا وارث بننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''وہ مومن کامیاب ہوئے جنہوں نے اپنی نمازوں میں اللہ کے خوف اور خشیت کو اختیار کیا‘ جنہوں نے لغویات سے اجتناب کیا‘ جو زکوٰۃ کو صحیح طریقے سے ادا کرتے ہیں‘ جو امانتوں اور وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں‘ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں‘ جو اپنی پاک دامنی کا تحفظ کرتے ہیں‘ سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے کسی کی خلوت میں نہیں جاتے، جو صاحب ایمان ایسا کرے گا‘ وہ فردوس کا وارث بن جائے گا‘‘۔ اس سورہ میں اللہ نے انسان کی پیدائش کا تفصیلی ذکر فرمایا کہ اللہ نے انسان کو نطفے سے بنایا، پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنایا، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایسی صورت دی کہ وہ مکمل انسان بن کر وجود میں آیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب کافروں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے گا تو وہ چیخ پڑیں گے۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا‘ آج چیخ و پکار مت کرو‘ بے شک ہمارے مقابلے میں کسی طرف سے تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔ ہماری آیات کی تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی تھیں تو تم ایڑیوں کے بل بھاگ پڑتے تھے، تکبر کرتے تھے اور اپنی رات کی محفلوں میں اس قرآن کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے تھے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ کافروں کی غفلت اور سرکشی کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا انہوں نے قرآن کریم پر غور نہیں کیا یا ان کے پاس کوئی ایسی چیز آ گئی ہے جو ان کے آبائو اجداد کے پاس نہیں آئی یا انہوں نے اپنے رسولﷺ کو پہلے سے نہیں پہچانا‘ جو ان کا انکار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو واضح فرما رہے ہیں کہ رسول کریمﷺ کی سابقہ زندگی ان کے سامنے ہے‘ اس لیے ان کو صادق اور امین رسول کا انکار نہیں کرنا چاہیے اور صرف اس وجہ سے قرآن مجید کو رد نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ان کے آبائو اجدا د کے عقائد سے مطابقت نہیں رکھتا بلکہ ان کو حق پر مبنی دعوت پر غور کرنا چاہیے اور اللہ کی اس وحی کو دل وجان سے قبول کرنا چاہیے۔ درحقیقت وہ یہ چاہتے تھے کہ حق ان کی خواہشات کے تابع ہو جائے حالانکہ اگر وحی کو ان کی خواہشات کے تابع کر دیا جائے تو آسمان و زمین میں موجود ہر چیز فساد کا شکار ہو جائے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ ہم نے ان کو بغیر وجہ کے پیدا کر دیا ہے اور انہوں نے ہمارے پاس پلٹ کر نہیں آنا حالانکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دوبارہ پیش ہوں گے اور ان کو اپنے کئے کا جواب دینا ہو گا۔ اس سورہ کے آخر میں ارشاد ہوا کہ جو کوئی بھی غیر اللہ کو پکارتا ہے اس کے پاس ایسا کرنے کی کوئی دلیل نہیں اور اس کا حساب پروردگار کے پاس ہے اور اس نے کبھی کافروں کو کامیاب نہیں کیا۔
سورہ نور
سورہ نور میں اللہ تعالیٰ نے فحاشی کی روک تھام کیلئے زنا کی سزا مقرر فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ زانی اور زانیہ (غیر شادی شدہ) کو ایک سو کوڑے مارنے چاہئیں؛ اگر اس گناہ کا ارتکاب شادی شدہ مرد یا عورت کرے تو‘ حدیث پاک میں‘ ایسے مجرم کیلئے سنگسار کی حد مقرر کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاک دامن عورتو ں پر تہمت لگانے کی مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں اور پھر چار گواہوں کو پورا نہیں کرتے‘ ایسے لوگوں کو بھی اسّی کوڑے مارنے چاہئیں اور مستقبل میں ان کی کوئی گواہی قبول نہیں کرنی چاہیے اور ان کا شمار فاسقوں میں ہو گا۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت کا اظہار فرمایا ہے اور قیامت تک آنے والے اہل ایمان کو ازواجِ مطہرات کی حرمت اور ناموس کے بارے میں باخبر کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ بھی سمجھایا کہ اہل ایمان کو ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہیے اور اگر کوئی کسی کی کردار کشی کرے تو سننے والے کو فوراً سے پہلے کردار کشی کو بہتان سے تعبیر کرنا چاہیے اور اس بات کو سمجھ جانا چاہیے کہ اگر کسی واقعہ پر چار گواہ موجود نہ ہوں تو الزام تراشی کرنے والا اللہ کی نظروں میں جھوٹا ہے۔ معاشرے میں برائی کی روک تھام کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس پارے میں مومن مردوں کو اپنی نگاہیں جھکانے کا حکم دیا ہے اور مومن عورتوں کو اپنی نگاہیں جھکانے کے ساتھ ساتھ پردہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے اور محرم رشتہ داروں کے علاوہ تمام لوگوں سے اپنی زینتیں چھپانے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے غیر شادی شدہ مردکی شادی کرنے کا حکم دیا ہے اور ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی شخص فقیر ہو تو نکاح کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کو غنی فرما دیں گے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے اپنے نور کی مثال بیان فرمائی ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور اس کے نور کی مثال ایسے ہے جیسے ایک طاق میں ایک چراغ ہو‘ اور وہ چراغ دھرا ہو ایک شیشے میں اور وہ شیشہ ایسے ہے جیسے ایک تارہ چمکتا ہوا تارہ، اس چراغ میں ایک مبارک زیتون کے درخت کا تیل جلتا ہے اور وہ درخت نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل ایسا ہے کہ آگ نہ بھی چھوئے تو وہ جلنے کو تیار ہے، خوب روشنی پر روشنی ہو رہی ہے۔اس مثال کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ زمین اور آسمان کو روشن فرمانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کے ذر یعے جس کو چاہتے ہیں‘ ہدایت کے راستے پر گامزن فرما دیتے ہیں۔ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے ان مومن مردوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ جو تجارت اور سوداگری یعنی کارِ دنیا میں مشغول ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے غافل نہیں ہوتے۔اللہ تعالیٰ نے صحیح ایمان رکھنے والے مومنوں کا ذکر کیا ہے کہ جب ان کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ جواب میں کہتے ہیں: ہم نے سنا اور اطاعت کی، اور صحیح کامیابی انہی صاحبِ ایمان لوگوں کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے وعدہ کیا ہے کہ جو ایمان اور عمل صالح کے راستے پر چلے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو زمین پر خلافت عطا فرمائیں گے‘ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سابقہ اہل ایمان کو خلافتِ ارضی سے نوازا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کو اپنے نبی کریمﷺ ہی کی حیاتِ مبارکہ میں پورا فرما دیا تھا اور سرزمین حجاز پر آپﷺ کی حکومت کو قائم کر دیا اور آپ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جناب ابوبکر صدیق‘ حضرت عمر فاروق‘ حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم کو بھی خلافت سے بہرہ ور فرما دیا اور خلفائے راشدینؓ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رہا‘ یہاں تک کہ ایمان کی کمی اور بدعملی کی شدت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حاکم سے محکوم اور غالب سے مغلوب کر دیا۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے خلوت کے تین اوقات کا ذکر کیا کہ ان اوقاتِ ممنوعہ میں کسی کے گھر جانا درست نہیں۔ ایک وقت عشاء کے بعد‘ دوسرا فجر سے پہلے اور تیسرا ظہر کے بعد ہے۔ ان تین اوقات میں کسی کے گھر جانا درست عمل نہیں ہے۔ ان تین اوقات کے علاوہ انسان کسی بھی وقت کسی کے گھر اجازت لے کر ملاقات کرنے کیلئے جا سکتا ہے۔ اس سورۃ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کے احکامات کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ رسولﷺ کے احکامات کی مخالفت کرتے ہیں‘ ان کو ڈر جانا چاہیے کہ کہیں وہ دنیا میں فتنے کا نشانہ نہ بن جائیں اور آخرت میں ان کو درد ناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سورہ فرقان
سورۃ النور کے بعد سورہ فرقان ہے‘ جس میں اللہ تبار ک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بابرکت ہے‘ وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان کو نازل کیا تا کہ وہ دنیا والوں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیں۔ فرقان کا مطلب فرق کرنے والا ہوتا ہے۔ قرآن مجید فرقانِ حمید نیکی اور بدی‘ ہدایت اور گمراہی‘ شرک اور توحید‘ حلال اور حرام کے درمیان فرق کرنے والا ہے‘ اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو فرقان کہہ کر پکارا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن مجید سمجھنے‘ پڑ ھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!
انیسویں پارے کا خلاصہ
انیسویں پارے کا آغاز سورۃ الفرقان سے ہوتا ہے۔ انیسویں پارے کے آغاز میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کو میری ملاقات کا یقین نہیں وہ بڑے تکبر سے کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر فرشتے کا نزول ہونا چاہیے یا ہم پروردگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب وہ قیامت کے روز اپنی آنکھوں سے فرشتوں کو دیکھیں گے تو اس دن مجرموں کو کوئی خوش خبری نہیں ملے گی۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن ظالم اپنے ہاتھ کو کاٹے گا اور کہے گا کہ اے کاش! میں نے رسول اللہﷺ کے راستے کو اختیار کیا ہوتا اور کاش میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے تو مجھے نصیحت آ جانے کے بعد اس سے غافل کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگ دنیا میں بری صحبت کو اختیار کرنے کی وجہ سے گمراہ ہوں گے۔
سورۃ الشعراء
سورہ فرقان کے بعد سورۃ الشعراء ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قوم نوح‘ قوم ہود‘ قوم ثمود اور قوم لوط پر آنے والے عذاب کا تذکرہ کیا کہ کس طرح ان تمام اقوام نے اپنے نبیوں کی نافرمانی کی اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ ان تمام اقوام نے اللہ کے بھیجے گئے تمام نبیوں کی تکذیب کی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے کسی ایک نبی کی بھی تکذیب کرتا ہے وہ کسی ایک کی تکذیب نہیں کرتا بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کرتا ہے۔
سورۃ الشعراء میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ سابقہ انبیاء کرام نے اپنی قوموں کے لوگوں سے اپنی دعوت کے بدلے کسی اجر کو طلب نہیں کیا بلکہ وہ سب اس دعوت کے بدلے جہانوں کے پروردگار سے اجر کے طلبگار تھے لیکن یہ ان کی قوم کے لوگوں کی ناعاقبت اندیشی تھی کہ انہوں نے خلوص کے ساتھ دی جانے والی دعوت کو نظر انداز کر دیا اور ان کی مخالفت پر تلے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کی تائید اور نصرت فرمائی اور ان نافرمانوں کو نشانِ عبرت بنا دیا۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے اپنی قوم سے بت پرستی کی وجہ دریافت کی کہ کیا تم جب ان کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری پکاروں کو سنتے ہیں اور کیا وہ تمہیں نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں؟ تو جواب میں قوم کے لوگوں نے کہا کہ نہیں بلکہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو انہیں پوجتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس پر جناب ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میں تمہارا اور تمہارے آباؤ اجداد کے معبودوں کا مخالف ہوں۔ میری وفا اور محبت رب العالمین کے لیے ہے جس نے مجھے بنایا اور سیدھا راستہ دکھلایا‘ جو مجھے کھلاتا بھی ہے اور پلاتا بھی ہے‘ جو مجھے امراض سے شفا عطا فرماتا ہے‘ جو مجھے موت بھی دے گا اور پھر دوبارہ زندہ بھی کرے گا اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے قیامت کے دن معاف بھی فرما دے گا۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اپنی طرف سے نازل ہونے کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو عربی جیسی خوبصورت اور واضح زبان میں اتارا اور اس کو جبرائیل امین رسول اللہﷺ کے سینہ مبارک پر لے کر آئے تاکہ وہ لوگوں کو ڈرا سکیں اور کہا کہ اس کی ایک بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ بنی اسرائیل یعنی یہود و نصاریٰ کے علماء بھی اس کو پہچانتے ہیں۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ شیطان ہر جھوٹ بولنے والے بڑے گناہ گار پر نازل ہوتا ہے اور بھٹکے ہوئے شاعروں پر بھی شیطان اترتا ہے۔ وہ شعرا جو ہر وقت وہم کی وادیوں میں ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں اورصرف باتیں بنانے میں معروف رہتے ہیں مگر وہ لوگ جو ایمان لے کر آئے اور ایمان کے بعد انہوں نے عمل صالح کا راستہ اختیار کیا‘ اللہ تعالیٰ ان سے شیاطین کو دور فرمائیں گے۔
سورۃ النمل
سورۃ الشعراء کے بعد سورۃ النمل ہے۔ سورۃ النمل میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی نشانیوں کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے مثال معجزات عطا فرمائے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام کو علم کی نعمت سے مالا مال فرمایا اور ان کو اپنے بہت سے بندوں پر فضیلت عطا فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جناب سلیمان علیہ السلام کو علم اور حکومت کے اعتبار سے جناب داؤد علیہ السلام کا وارث بنایا اور ان کو پرندوں اور جانوروں کی بولیاں سکھائی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ جنات‘ انسانوں اور ہواؤں پر بھی ان کو حکومت عطا کی تھی۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کا ذکر فرمایا کہ جب جنابِ سلیمان علیہ السلام کا لشکر جا رہا تھا تو چیونٹیوں کی ملکہ نے چیونٹیوں کو حکم دیا کہ سب اپنے اپنے بل میں چلی جائیں ایسا نہ ہو کہ وہ سلیمان علیہ السلام کے لشکر کے گزرنے کے سبب کچلی جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے جنابِ سلیمان علیہ السلام تک یہ الفاظ پہنچا دیے اور آپ علیہ السلام نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے آپ کو پرندوں اور جانوروں کی بولیاں بھی سکھائی تھیں اور یہ دعا کی ''اے اللہ! مجھے توفیق عطا فرما کہ جو احسان تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے ہیں‘ ان کا شکر ادا کروں اور ایسے نیک کام کروں کہ تُو ان سے خوش ہو جائے اور مجھے اپنے رحمت سے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما‘‘۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جناب سلیمان علیہ السلام کے دربار کی ایک کیفیت کا بھی ذکر کیا کہ جناب سلیمان علیہ السلام اپنے دربار میں جلوہ افروز تھے کہ آپ نے ہدہد کو غائب پایا۔ جناب سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر ہدہد نے اپنی غیر حاضری کی کوئی معقول وجہ بیان نہ کی تو میں اس کو سخت سزا دوں گا یا اس کو ذبح کر دوں گا۔ کچھ دیر کے بعد ہدہد آیا تو اس نے کہا کہ جناب سلیمان علیہ السلام! آج دربار کی طرف آتے ہوئے میرا گزر ایک ایسی بستی سے ہوا جہاں کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتیں حاصل ہیں اور ان پر ایک عورت حکمران ہے اور قوم کی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ سورج کی پوجا کر رہی ہے جبکہ انہیں اللہ کی پوجا کرنی چاہیے۔ جناب سلیمان علیہ السلام اس ملکہ کے نام خط لکھتے ہیں۔ ملکہ خط کو پڑھنے کے بعد درباریوں سے مشورہ کرتی ہے اور جواب میں سیدنا سلیمان علیہ السلام کو تحفے تحائف بھجوا دیتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام تحفوں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہے وہ ان تحفوں سے بہت بہتر ہے۔ آپ اپنے دربایوں کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ تم میں سے کون ہے جو ملکہ کے تخت کو میرے دربار میں لے کر آئے‘ اس پر ایک بہت بڑے جن نے کہا کہ میں دربار کے برخاست ہونے سے پہلے ملکہ کے تخت کو یہاں لا سکتا ہوں۔ اس پر ایک ایسا شخص کھڑا ہوا جس کے پاس کتاب کا علم تھا اور وہ اللہ کے اسمائے اعظم کا علم رکھنے والا تھا‘ اس نے کہا: میں ملکہ کے تخت کو آپ کے پہلو بدلنے سے پہلے یہاں حاضر کر دوںگا اور آناً فاناً میں تخت وہاں موجود تھا۔ جناب سلیمان علیہ السلام اور ملکہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے کچھ تبدیلی کر کے ملکہ سے پوچھا کیا یہ تمہارا ہی تخت ہے تو جواب میں ملکہ نے کہا: ہاں! یہ میرا ہی تخت ہے۔ اس کے بعد جناب سلیمان علیہ السلام نے ملکہ کو اپنے محل کے ایک خاص حصے میں آنے کی دعوت دی۔ اس حصے کا فرش شیشے کا بنا ہوا تھا لیکن دیکھنے والی آنکھوں کو پانی محسوس ہوتا تھا۔ جناب سلیمان علیہ السلام نے جب ملکہ کو شیشے کے فرش سے گزرنے کے لیے کہا تو ملکہ نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑے کو اٹھا لیا تاکہ کہیں اس کے کپڑے گیلے نہ ہو جائیں۔ جناب سلیمان علیہ السلام نے کہا: ملکہ یہ فرش شیشے کا بنا ہوا ہے۔ انہوں نے ملکہ کو جتلایا کہ تم پانی اور شیشے میں فرق نہیں کر سکتی۔ جناب سلیمان علیہ السلام اصل میں ملکہ کو بتلا رہے تھے کہ اسی طرح تم سورج کی روشنی اور اللہ تعالیٰ کے نور میں بھی فرق نہیں کر سکتی۔ ملکہ نے فوراً اعلان کیا کہ اے میرے پروردگار! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا۔ ملکہ نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ واقعہ ہمیں بتلاتا ہے کہ ہمیشہ دین کی دعوت حکمت اور دانائی سے دینی چاہیے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!
بیسویں پارے کا خلاصہ
بیسویں پارے کا آغاز سورہ نمل سے ہوتا ہے ۔بیسویں پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ اپنی قوتِ تخلیق اور توحیدکا ذکر کیا ہے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کے سوا کون ہے جس نے زمین و آسمان کو بنایا ہو اور آسمان سے پانی کو اتارا جس کی وجہ سے مختلف قسم کے باغات اُگتے ہیں اور فرمایا کون ہے جس نے زمین کو قرار دیا ہے اور اس میں پہاڑوں کو لگایا ہو اور اس میں نہروں کو جاری فرمایا ہو ؟
کیا اللہ کے سوا بھی کوئی الہ ہے؟ اور مزید کہا کہ اللہ کے سوا کون ہے جو بے قراری کی حالت میں کی گئی دعائوں کو سننے والا ہو اور جو تکلیف پہنچتی ہے اس کو دور فرمانے والا ہو ۔اور اللہ کے سوا کون ہے جو خشکی اور رات کی تاریکی میں انسانوں کی رہنمائی فرمانے والا ہو اور کون ہے جو خوشخبری دینے والی ہوائوں کو بھیجنے والا ہو اور کہا کیا اللہ کے سوا بھی کوئی معبود ہے جو تخلیق کا آغاز کرنے والا ہو اوردوبارہ اس کو زندہ کرنے والا ہو اور کون ہے جو زمین و آسان سے رزق عطا فرمانے والا ہو اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں اگر تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو سنائو اگر تم سچے ہو۔
سورہ نمل کے بعد سورہ قصص ہے ۔سورہ قصص میں اللہ تعالیٰ نے جنابِ موسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر کیا ہے۔ فرعون ایک برس بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرواتا اور ایک سال ان کو زندہ چھوڑ دیتا تھا ۔جنابِ موسیٰ علیہ السلام اس سال پیدا ہوئے جس سال فرعون نے بچوں کے قتل کا حکم دے رکھا تھا ۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر وحی کو نازل فرمایا کہ ان کو دودھ پلائیں‘ جب خدشہ ہو کہ فرعون کے ہر کارے آپہنچے ہیں تو ان کو جھولے میں لٹا کر سمندر کی لہروں کی نذر فرما دیں۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ایسے ہی کیا۔جب خطرہ محسوس ہوا تو ان کو جھولے میں بٹھا کر سمندر کی لہروں کی نذر فرمادیا ۔
سمندر کی لہروں نے جھولے کو فرعون کے محل تک پہنچا دیا۔فرعون کی اہلیہ جنابِ آسیہ نے جھولے میں ایک خوبصورت بچے کو آتے دیکھا تو فرعون سے کہا کہ اسے قتل نہ کریں یہ میری اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے گا‘ ہم اس کو بیٹا بنا لیں گے اور یہ ہمارے لیے نفع بخش بھی ہو سکتا ہے ۔فرعون نے جناب ِآسیہ کی فرمائش پر جناب موسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا اور ان کو پالنے پر آمادہ و تیار ہو گیا ۔ادھر موسیٰ علیہ السلام کی بہن بھی تعاقب کرتے کرتے فرعون کے محل تک پہنچ گئیں ۔فرعون نے اعلان کر دیا کہ مجھے اس بچے کے لیے ایک دایہ کی ضرورت ہے ۔بہت سی دایائوں نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلانے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے دایائوں کو جنابِ موسیٰ علیہ السلام پر حرام فرما دیا ۔
یہاں تک کہ جناب موسیٰ علیہ السلام کی بہن آگے بڑھیں اور کہنے لگیں کہ کیا میں آپ کو ایک ایسے خانوادے سے آگاہ نہ کروں جو آپ کے لیے اس بچے کی کفالت کر دے ۔فرعون نے کہا اس خاندان کو بھی آزمالینا چاہیے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کی والدہ فرعون کے محل میں پہنچیں۔ موسیٰ علیہ السلام کو اپنی گود میں لیا تو جناب موسیٰ علیہ السلام نے فوراًدودھ پینا شروع کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا عجیب منظر ہے کہ دشمن موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو دودھ پلانے کی اُجرت دے رہا تھا ۔
موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں پرورش پاتے ہیں۔ جب جوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو علم و حکمت سے بہرہ ور فرما دیا ۔ایک دن جناب ِموسیٰ علیہ السلام شہر میں داخل ہوتے ہیں ۔کیا دیکھتے ہیں کہ فرعون کے قبیلے کا ایک آدمی بنی اسرائیل کے ایک آدمی کے ساتھ لڑ رہا ہے ۔بنی اسرائیل کے آدمی نے جب موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تو اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی دہائی دی ۔جناب موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کے آدمی کی حمایت میں فرعونی کو زور دار تھپڑ دے مارا ۔تھپڑ مارنے کی دیر تھی کہ وہ آدمی ضربِ کلیم کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا ۔
جناب موسیٰ علیہ السلام کا اسے قتل کرنے کا ارادہ نہ تھا۔ جب آپ نے یہ منظر دیکھا تو آپ نے پروردگارعالم سے توبہ و استغفار کی ۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی توبہ اور استغفار کو قبول کر لیا ۔ اسی اثنا میں موسیٰ علیہ السلام کو اس بات کی اطلاع ملی کہ فرعون کے ہرکارے ان کو تلاش کر رہے ہیں۔آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی کو طلب کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی رہنمائی کی اور ان کو مدین کے گھاٹ پر پہنچا دیا ۔
موسیٰ علیہ السلام مدین کے گھاٹ پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگ پانی نکالنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں اور وہاں پر دو لڑکیاں بھی پانی لینے آئی تھیں لیکن رش کی وجہ سے پانی لینے سے قاصر تھیں ۔جناب موسیٰ علیہ السلام نے ان کے لیے پانی نکالا اور ایک طرف ہٹ کر سائے میں بیٹھ گئے ۔بھوک اور پیاس کو محسوس کیا تو پروردگار عالم سے دعا مانگی اے میرے پروردگار تو میری جھولی میں خیر کو ڈال دے۔ دعا مانگنے کی دیر تھی کہ یکا یک انہیں دو لڑکیوں میں سے ایک لڑکی انتہائی شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی جناب موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئی اور کہا کہ میرے بابا آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ جو آپ ہمارے کام آئے ہیں اس کا آپ کو صلہ دیا جاسکے ۔جناب موسیٰ علیہ السلام مدین کے بزرگ شخص کے پاس پہنچے۔ بہت سے مفسرین کے مطابق وہ جناب شعیب علیہ السلام تھے۔آپ نے ان کو اپنے حالات سے آگاہ کیا تو جناب شعیب علیہ السلام نے کہا کہ آپ میرے پاس رہیں اور آپ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کی شادی بھی اپنی بیٹی سے کردی۔
موسیٰ علیہ السلام دس برس تک جنابِ شعیب کے پاس مقیم رہے اور ان کی بکریاں بھی چراتے رہے ۔دس برس کے بعد جنابِ موسیٰ علیہ السلام نے وطن واپسی کاارادہ کیا۔ راستے میں سردی کا ا حساس ہوا۔ طور پہاڑ کے پاس سے گزرے تو دور سے آگ کو جلتا ہوا محسوس کیا۔ اپنی اہلیہ کو فرمانے لگے کہ تم ذرا ٹھہرو میں طور پہاڑ سے آگ لے کر آتا ہوں اس سے ذرا حرارت پیدا ہو جائے گی ۔جب طور پر پہنچے تو خالق ِکائنات نے آواز دی اے موسیٰ !میں اللہ عزیزو حکیم ہوں ۔اس موقع پر آپ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے نواز دیا اور آپ کے عصا کو معجزاتی عصا اور آپ کے ہاتھ کو نورانی بنا دیا ۔جنابِ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا مانگی کہ اے پروردگار ! میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت عطا فرمادے اس لیے کہ وہ خطابت اور بلاغت کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔
اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمالی ۔جنابِ موسیٰ علیہ السلام فرعون کے پاس آئے تو فرعون نے آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔موسیٰ علیہ السلام نے ہر طرح اس کو سمجھایا مگر وہ نہ مانا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو پانی میں ڈبو کر ہلاکت کے گڑھے میں گرا دیا ۔
اس کے بعد سورہ عنکبو ت ہے اور اس سورہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو بھی ایمان کا دعویٰ کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ ضرور آزمائیں گے جس طرح اللہ نے پہلے لوگوں کو آزمایا تھا اور آزمائش کے بعد اس بات کو واضح کریں گے کہ ایمان کے دعوے میں سچا کون اور جھوٹا کون ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان سابقہ امم اور افراد کا ذکر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائش پر ثابت قدم رہے ۔ان لوگوں میں اصحاب الاخدود اور قوم ِموسیٰ کے جادوگر سرِفہرست ہیں جنہوں نے وقت کے حاکموں کے ظلم اور استبداد کی پروا نہ کی اور اللہ کی توحید پر بڑی استقامت کے ساتھ کاربند رہے اور اپنے ایمان کے دعوے کو عمل سے ثابت کیا۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ مشرکوں کی مثال مکڑی کی ہے جو گھر بناتی ہے لیکن اس کی کوئی بنیا د نہیں ہوتی ۔اسی طرح مشرک غیر اللہ کو پکارتے ہیں مگر ان کی پکار میں کوئی وزن نہیں ہوتا ۔بے شک ان کے نظریات مکڑی کے کمزور گھروں کی طرح ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پڑھنے ‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
اکیسویں پارے کا خلاصہ
قرآنِ مجید فرقان حمید کے اکیسویں پارے کا آغاز سورہ عنکبوت سے ہوتا ہے۔ اکیسویں پارے کے آغاز میں اللہ تعالیٰ اپنے حبیبﷺ سے فرماتے ہیں کہ جو کتاب آپ پر نازل کی گئی ہے‘ اس کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا: بیشک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ پہلے سے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے‘ نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے‘ ورنہ اہل باطل اس قرآن کے اللہ کی جانب سے ہونے پر شک کرتے۔ اللہ کے حبیبﷺ نے کسی مکتب یا مدرسے سے رسمی تعلیم حاصل نہیں کی‘ اگر آپﷺ لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو اہل باطل کے شک میں کوئی وزن ہوتا‘ لیکن آپﷺ کا بغیر کسی رسمی تعلیم کے قرآن مجید جیسی کتاب کو پیش کرنا اس امر کی واضح دلیل تھی کہ آپﷺ اللہ کے بھیجے ہوئے نبی اور اس کے سچے رسول ہیں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ یہ واضح آیات ہیں‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے اہل علم کے سینوں میں محفوظ فرما دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آیات سے جھگڑنے والے لوگ ظالم اور کافر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں مشرکین مکہ کی بد اعتقادی کا ذکر کیا کہ جب وہ سمندروں میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کو پورے اخلاص سے پکارتے ہیں اور جب بحفاظت خشکی پہ آ جاتے ہیں تو وہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں‘ جو لوگ میرے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں‘ میں ان کو ہدایت کا سیدھا راستہ ضرور دکھاؤں گا اور بے شک اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔
سورۃ الروم
سورہ عنکبوت کے بعد سورہ روم ہے۔ یہ سورہ مبارکہ اس وقت نازل ہوئی جب روم کے اہل کتاب کو ایران کے آتش پرستوں سے شکست ہوئی تھی۔ کفارِ مکہ ایرانیوں کی اس فتح پر دلی طور پر بہت خوش تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں مومنوں کی دل جوئی کے لیے اس امر کا اعلان فرمایا کہ اہلِ روم مغلوب ہو گئے‘ قریب کی سرزمین (شام) میں اور اپنی مغلوبیت کے بعد چند ہی سالوں میں غالب آئیں گے۔ پہلے بھی ہر چیز کا اختیار صرف اللہ کے پاس تھا اور بعد میں بھی صرف اسی کے پاس رہے گا اور اس دن مومن خوش ہو جائیں گے۔ جب ان آیات کا نزول ہوا تو مشرکین مکہ نے ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے اس کو ناممکن خیال کیا۔ ابی بن خلف تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ شرط لگانے پر اتر آیا کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ کافر‘ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اختیارات سے ناواقف تھے اس لیے کہ ان کی نگاہ صرف ظاہری حالات پر تھی۔ اللہ تعالیٰ کی برحق پیش گوئی کے مطابق ہجرت سے ایک سال قبل فارسی کمزور ہونا شروع ہو گئے اور 2 ہجری میں اہلِ فارس کا سب سے بڑا آتش کدہ بھی رومی فتوحات کی لپیٹ میں آگیا اور اسی سال بدر کے معرکے میں مسلمانوں کو اللہ نے غلبہ عطا فرمایا اور مسلمانوں کی خوشیاں دوچند ہو گئیں کہ رومیوں کی فتح کی اچھی خبر بھی سننے کو مل گئی اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی کافروں کے مقابلے میں فتح یاب فرما دیا۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ قرابت داروں‘ مساکین اور مسافروں کا حق ان کو دینا چاہیے، یہ بہتر ہے‘ ان لوگوں کے لیے جو اپنے اللہ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ جو سود انسان کھاتا ہے‘ جس کا مقصد مالوں کو پرورش دینا یعنی بڑھانا ہوتا ہے ‘اس سے مال پروان نہیں چڑھتا اور جو زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کے لیے دی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس میں اضافہ فرماتے ہیں۔
سورہ لقمان
سورہ روم کے بعد سورۃ لقمان ہے۔ سورہ لقمان میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے والے لوگ‘ نمازوں کو قائم کرنے والے‘ زکوٰۃ کو ادا کرنے والے اور آخرت پر پختہ یقین رکھنے والے ہوتے ہیں۔ سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ بعض لوگ لغو باتوں کی تجارت کرتے ہیں اور ان کا مقصد صرف لوگوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ لغو باتوں میں موسیقی‘ بے راہ روی پیدا کرنے والا لٹریچر‘ مخرب الاخلاق افسانے اور ناول وغیرہ سبھی شامل ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذلت والے عذاب کو تیار کر رکھا ہے۔ سورہ لقمان میں اللہ تعالیٰ نے جناب لقمان کا ذکر کیا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے دانائی و حکمت سے نوازا تھا۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کوکچھ قیمتی نصیحتیں کی تھیں‘ ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو کہا کہ بیٹے شرک نہ کرنا‘ بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو والدین کی خدمت کی بھی تلقین کی‘ نیز اللہ کے علم کی وسعتوں سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایاکہ اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانے کے برابر کوئی چیز کسی چٹان کے اندر یا آسمان و زمین میں موجود ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی سامنے لے آئے گا، بے شک اللہ بڑا باریک بین اور بڑا باخبر ہے۔ اس نصیحت کا مقصد یہ تھا کہ انسان کو کوئی بھی عمل کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو بڑی باریک بینی سے دیکھ رہا ہے۔ آپ نے اپنے بیٹے کو یہ بھی نصیحت کی کہ اے میرے بیٹے! نماز قائم کر‘ بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روک اور تجھے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کر، بے شک یہ بڑی ہمت والے اور ضروری کام ہیں۔ آپ نے اپنے بیٹے کو مزید یہ نصیحت کی کہ لوگوں سے اپنا چہرہ پھیر کر بات نہ کر اور زمین پر اکڑ کر نہ چل، بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ اکڑ کر چلنے والے متکبرین کو پسند نہیں کرتا اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست رکھ، بے شک بدترین آواز گدھے کی آواز ہے۔
اس سورہ کے آخر میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان پانچ غیب کی باتوں کا ذکر کیا ہے‘ جن کو صرف وہی جانتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ بے شک اس کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہ جانتا ہے بارش کب ہو گی اور وہ جانتا ہے جو ماں کے رحم میں ہے اور کسی نفس کو نہیں پتا کہ وہ کل کیا کر سکے اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا؟ ان تمام باتوں کا علم صرف باخبر اور علم رکھنے والے اللہ ہی کے پاس ہے۔
سورہ سجدہ
اس کے بعد سورہ سجدہ ہے۔ سورہ سجدہ میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ اس نے ملک الموت کی ڈیوٹی انسانوں کی ارواح قبض کرنے پر لگائی ہے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کسی انسان کو علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا اہتمام فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ مبارکہ میں بیان کیا کہ مومن اور گناہ گار برابر نہیں ہو سکتے۔ مومن کا مقدر جنت جبکہ سرکشی اور نافرمانی اختیار کرنے والے کا مقدر جہنم کے انگارے ہیں۔
سورۃ الاحزاب
سورہ سجدہ کے بعد سورۃ الاحزاب ہے۔ سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے جنگِ خندق کا ذکر کیا ہے کہ جس میں کافروں کی افرادی قوت دیکھ کر منافقین کے دلوں پر ہیبت طاری ہو گئی تھی جبکہ اہل ایمان پوری استقامت سے میدان میں ڈٹے رہے۔ چوبیس ہزار کے لشکر جرار نے مدینے پر حملہ کیا۔ رسول کریمﷺ کے ساتھ صحابہ کرام کے علاوہ سترہ سو یہودی بھی حلیف تھے مگر یہ سترہ سو حلیف اتنی بڑی فوج کو دیکھ کر بھاگ گئے۔ اب رسول کریمﷺ کے ہمراہ صرف جانباز مسلمانوں کی ایک مختصر جماعت تھی۔ مسلمانوں نے جب اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے تیز آندھیوں اور فرشتوں کی جماعتوں کے ذریعے اہل ایمان کی مدد فرمائی اور کافر کثرتِ تعداد اور وسائل کی فراوانی کے باوجود ذلت اور شکست سے دوچار ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور یوم حساب کی آمد کا یقین ہے‘ اس کے لیے رسول اللہﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ رسول کریمﷺ ہر شعبہ زندگی میں ہمارے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اور گھریلو زندگی‘ سماجی زندگی‘ انفرادی زندگی‘ اجتماعی زندگی میں آپﷺ کی ذاتِ اقدس ہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ مجید میں بیان کردہ مضامین سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
بائیسویں پارے کا خلاصہ
قرآن پاک کے بائیسویں پارے کا آغاز سورہ احزاب سے ہوتا ہے۔ سورہ احزاب کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ جو کوئی بھی امہات المومنینؓ میں سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لیے اپنے آپ کو وقف کرے گی اور نیک اعمال کرے گی‘ اللہ اس کو دو گنا اجر عطا فرمائے گا اور اس کے لیے پاک رزق تیار کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے امہات المومنینؓ کو اس امر کی بھی تلقین کی کہ جب وہ کسی سے بات کریں تو نرم آواز سے بات نہ کیا کریں تاکہ جس کے دل میں مرض ہے‘ وہ ان کی آوازوں کو سن کر طمع نہ رکھے اور معروف طریقے سے بات کریں۔
اللہ تعالیٰ نے امہات المومنینؓ کو اس امر کی بھی تلقین کی کہ وہ اپنے گھروں میں مقیم رہیں اور جاہلیت کی بے پردگی اور بناؤ سنگھار کا اظہار نہ کریں اور نماز کو قائم کریں‘ زکوٰۃ ادا کریں اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کریں۔ بے شک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ نبی کریمﷺ کے گھر والوں سے ناپاکی کو دور کر دیا جائے اور ان کو پاک صاف کر دیا جائے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں‘ بیٹیوں اور مومن عورتوں کو کہہ دیں کہ گھروں سے نکلیں تو وہ جلباب کو اوڑھا کریں۔ جلباب سے مراد ایک ایسا لباس ہے‘ جس نے عورت کو سر کے بالوں سے لے کر پائوں کے ناخن تک ڈھانپا ہو اور صرف ایک آنکھ نظر آ رہی ہو اور اس لباس کا مقصد یہ تھا کہ وہ پہچان لی جائیں اور کوئی ان کو تنگ نہ کرے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے منہ بولے بیٹے کے مسئلے کو بھی واضح کیا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ امر بھی واضح فرما دیا کہ جناب رسول اللہﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں‘ بلکہ اللہ کے رسول اور اس کے آخری نبی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا کہ وہ اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کریں اور صبح شام اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہا کریں۔ اللہ اور اس کے فرشتے مومنین پر رحمت بھیجتے ہیں تاکہ اہلِ ایمان کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر (ہدایت کی) روشنی کی طرف لے جائیں۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریمﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں، اس لیے اے ایمان والو! تم بھی نبی اکرمﷺ پر خوب درود و سلام بھیجا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد دینے والا عذاب ہے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے حوالے سے بتلایا کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو جہنمیوں کو اوندھے منہ جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا۔ اس موقع پر جہنمی یہ کہیں گے کہ اے کاش! ہم نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات کو مانا ہوتا اور کہیں گے کہ ہم نے اپنے بڑوں اور سرداروں کی بات کو مانا‘ پس انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ان کو دُگنا عذاب دے اور ان پر لعنت برسا۔
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اس بات کی نصیحت کی ہے کہ اے ایمان والو! تم ان کی طرح نہ ہو جاؤ‘ جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی کہی ہوئی بات سے موسیٰ علیہ السلام کی برأت ظاہر کر دی اور وہ اللہ کے نزدیک بڑی عزت والے تھے۔ اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نبی کی تکریم کریں اور آپﷺ کی ذات کا ہر ممکن دفاع کریں۔ اس سورہ میں سچی بات کہنے کے فوائد بھی بتلائے گئے ہیں کہ اگر بات سیدھی کی جائے تو معاملات سنور جاتے ہیں اور اللہ حق گو شخص کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔
سورہ سبا
سورۃ الاحزاب کے بعد سورہ سبا ہے۔ سورہ سبا میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں‘ جس کے لیے آسمان و زمین میں موجود سب کچھ ہے اور آخرت میں بھی اسی کی حمد و تعریف ہے اور وہ باخبر حکمت والا ہے۔ وہ جانتا ہے‘ جو زمین میں جاتا ہے اور جو اس سے نکلتا ہے اور جو آسمان سے اترتا اور اس کی طرف چڑھتا ہے اور وہ رحمت کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے جناب داؤد اور سلیمان علیہم السلام پر اپنے انعامات کا ذکر کیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے جناب داؤد علیہ السلام کے لیے پہاڑ اور پرندوں کو مسخر فرما دیا اور لوہے کو ان کے ہاتھوں میں نرم کر دیا تھا۔ جناب سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوائوں کو مسخر فرما دیا تھا اور مہینے کا سفر وہ چند پہروں میں کر لیتے تھے، جنات کو ان کے احکامات کے تابع کر دیا تھا۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے سبا کی بستی کا ذکر کیا ہے کہ یقینا سبا والوں کے لیے ان کے مقامِ رہائش میں نشانی تھی کہ ان کے دائیں اور بائیں دو باغ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو کہ یہ پاکیزہ شہر ہے اور گناہوں کو معاف کرنے والا رب ہے‘ لیکن انہوں نے روگردانی کی تو‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ‘ ہم نے ان پر ایک سخت امڈتا ہوا سیلاب بھیج دیا اور ان کے دونوں باغوں کو بدمزہ پھل‘ جھاڑیوں اور کچھ بیری والے باغوں میں بدل دیا‘ ہم نے ان کو یہ بدلہ ان کے کفر کی وجہ سے دیا تھا اور ہم صرف ناشکروں کو ایسا بدلہ دیتے ہیں۔ اس سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اللہ نے اپنے رسول محمد عربیﷺ کو جمیع انسانیت کے لیے بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس بات کو نہیں جانتی۔
سورہ فاطر
سورہ سبا کے بعد سورہ فاطر ہے۔ سورہ فاطر میں اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ تمام تعریفیں زمین اور آسمان بنانے والے اللہ کے لیے ہیں۔ اس نے فرشتوں میں سے بھی رسول (پیامبر) چنے ہیں۔ بعض فرشتے دو پروں والے بعض تین اور بعض چار پروں والے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی خلقت میں جس طرح چاہتا ہے اضافہ کرتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ جناب جبریل امینؑ جو کہ فرشتوں کے سردار ہیں‘ کو اللہ تعالیٰ نے چھ سو پر عطا فرمائے ہیں۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ان گمراہ لوگوں کا ذکر کیا کہ جن کو ان کے غلط اعمال بھی اچھے معلوم ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نبی رحمتﷺکو دلاسہ دیتے ہیں کہ آپ ان اعمال پر حسرت نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کو پتا ہے جو یہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں دنیا میں جتنی عورتیں حاملہ ہوتیں اور جتنی بچوں کو جنتی ہیں اور جو کوئی بھی بوڑھا ہوتا ہے اور جس کی عمر کم ہوتی اللہ کو ہر بات کا علم ہوتا ہے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے اور نہ ہی دھوپ اور چھاؤں برابر ہو سکتے ہیں اور نہ ہی زندہ اور مردہ برابر ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو شخص ہدایت کے راستے پر ہو وہ گمراہ انسانوں کے برابر نہیں ہوتا۔
سورہ یٰسٓ
سورہ فاطر کے بعد سورہ یٰسٓ ہے۔ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی قسم کھا کر کہا بے شک محمدﷺ رسولوں میں سے ہیں اور ان کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ کافر ہیں‘ ان کو ڈرایا جائے یا نہ ڈرایا جائے‘ ان کے لیے برابر ہے‘ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ رسول کریمﷺ اس کو ڈراتے ہیں جو قرآن مجید کی پیروی کرتا اور اللہ تعالیٰ کے ڈر اور تقویٰ کو اختیار کرنے والا ہے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک بستی کا ذکر کیا‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دو پیغمبروں کو بھیجا لیکن بستی والوں نے ان کو جھٹلایا تب اللہ تعالیٰ نے تیسرے پیغمبر سے ان کی مدد کی۔ ان پیغمبروں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہیں جس پر بستی والوں نے کہا کہ رحمٰن نے کچھ بھی نازل نہیں کیا اور معاذ اللہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ بستی والوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بستی کے ایک کنارے سے ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! رسولوں کی پیروی کرو جو تم سے کچھ بھی طلب نہیں کر رہے اور وہ ہدایت پر ہیں۔ اس کے بعد کا واقعہ تئیسویں پارے میں بیان ہوگا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!
تئیسویں پارے کا خلاصہ
تئیسویں پارے کا آغاز سورہ یٰسٓ سے ہوتا ہے۔ بائیسویں پارے کے آخر میں انبیا علیہم السلام کی تائید کرنے والے مومن کا ذکر تھا۔ اس پارے میں اس مرد مومن کی تبلیغ کا ذکر ہے کہ اس نے بستی کے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں اللہ کی عبادت کیوں نہ کروں کہ اسی نے مجھے پیدا کیا اور اسی کی طرف مجھے پلٹ کر جانا ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر اگر میں کوئی اور معبود پکڑ لوں تو مجھے اس معبود کا کیا فائدہ کہ اللہ تعالیٰ اگر مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو وہ میرا کچھ بھی بھلا نہیں کر سکتے۔ بستی والوں نے اس کی دعوت قبول کرنے کے بجائے اس کو شہید کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو جنت میں داخل کر دیا اس پر اس شخص نے خواہش ظاہر کی کہ اے کاش! میری قوم کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ رب العزت نے مجھے بخش دیا ہے اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا ہے۔ اس بندۂ مومن کی شہادت کے بعد اللہ کی رحمتیں بستی والوں سے روٹھ گئیں۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے اعتراضات کا ذکر کیا ہے کہ کافر کہتے ہیں کہ کون ہڈیوں کو زندہ کرے گا‘ جبکہ ہماری ہڈیاں چور چور ہو چکی ہوں گی۔ فرمایا کہ وہی ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا‘ جس نے پہلی مرتبہ ان کو پیدا کیا تھا اور اس کو ہر قسم کی تخلیق کی پوری خبر ہے۔
سورۃ الصّٰفٰت
اس کے بعد سورۃ الصّٰفٰت ہے‘ مجموعی طور پر اس سورہ کے مطالب کا پانچ حصوں میں خلاصہ ہوتا ہے‘ پہلا حصہ خدا کے فرشتوں کے مختلف گروہوں کے بارے میں بحث کی گئی ہے اور ان کے مقابلے میں سرکش شیطانوں کے گروہوں اور ان کے انجام کو بیان کیا گیا ہے۔ دوسرا حصہ کافروں کے بارے میں‘ ان کے انکار اور قیامت میں ان کے انجام کو بیان کیا گیا ہے۔ تیسرا حصہ انبیاء کرام جیسے حضرت نوح علیہ السلام‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام‘ حضرت اسحٰق علیہ السلام‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام‘ حضرت ہارون علیہ السلام‘ حضرت الیاس علیہ السلام‘ حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں ہے۔ چوتھا حصہ شرک کی ایک بدترین قسم کا ذکر ہے یعنی جنوں اور خدا یا فرشتوں اور خدا کے درمیان قرابت کا اعتقاد اور مختصر جملوں میں اس عقیدے کی اس طرح دھجیاں بکھیری گئی ہیں کہ اس میں معمولی سی رمق بھی باقی نہیں رہتی۔ پانچواں حصہ اس سورہ کا آخری حصہ ہے اور لشکرِحق کی کفر و شرک پر فتح کا ذکر ہے۔ اہل شرک و نفاق کے عذابِ الٰہی میں گرفتار ہونے کا تذکرہ ہے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی تخلیق کے مقاصد واضح کیے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کے ذریعے آسمان کو زینت عطا کی اور ان میں سے بعض ستاروں کو اللہ تعالیٰ آسمان کی خبریں چوری کرنے والے شیاطین کو مارنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ پھر جناب ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو خواب میں دکھلایا کہ وہ اپنے بیٹے (جناب اسماعیل علیہ السلام) کے گلے پر چھری چلا رہے ہیں۔ جناب ابراہیم علیہ السلام نے جناب اسماعیل علیہ السلام سے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تمہارے گلے پر چھری چلا رہا ہوں‘ اب بتاؤ کہ تمہاری رائے کیا ہے۔ جناب اسماعیل علیہ السلام نے جواب میں کہا: بابا! آپ وہ کام کریں‘ جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اور ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹایا تو اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کو پکارا کہ آپ نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کی قربانی قبول فرما کر جہاں اخروی جزا کو ان کا مقدر بنا دیا‘ وہیں پر رہتی دنیا تک کے لیے بھی اس قربانی کو ایک مثال بنا دیا۔ اسی سورہ میں جناب یونس علیہ السلام کا ذکر ہے کہ وہ رسولوں میں سے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک لاکھ افراد کی طرف مبعوث فرمایا تھا۔ جناب یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی کثرت سے تسبیح کی اور دعا مانگی 'لاالٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظٰلمین اس وظیفے اور دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت بڑی مصیبت سے نجات دے دی۔
سورہ صٓ
اس کے بعد سورہ صٓ ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے جناب رسول کریمﷺ کی دعوت پر اعتراض کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اللہ واحد کی عبادت کا درس دیا اور باقی تمام معبودوں کی نفی کی اور یہ بات مشرکین کو کسی طور گوارا نہیں تھی‘ پھر جناب داؤد علیہ السلام کی حکمت اور قوتِ بیان کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے فرزند جناب سلیمان علیہ السلام کی دعا کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے پروردگار عالم سے دعا مانگی کہ اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی حکومت دے جو میرے بعد کسی دوسرے کے نصیب میں نہ آئے‘ بیشک تو سب سے بڑھ کر عطا کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جناب سلیمان علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو ایسی سلطنت عطا فرمائی کہ جنات اور ہواؤں کو آپ کے تابع فرما دیا۔ جنات آپ کے حکم پر عمارتیں ،بڑے حوض اور جمی ہوئی دیگیں بناتے اور آپ کے حکم سے غوطہ خوری بھی کرتے۔ اسی طرح تیز ہوائیں آپ علیہ السلام کے حکم پر صبح و شام ایک ماہ کی مسافت طے کرتیں تھیں۔ آپ کے دربار میں تمام چرند پرند کے نمائندے موجود ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر بہت زیادہ انعامات کیے‘ لیکن آپ اس تمام انعام واکرام کے باوجود اللہ کی بندگی میں مشغول رہے اور اپنی تمام تر توانائیوں کو اللہ کی توحید کی نشر واشاعت میں صرف کرتے رہے اور جب بھی کبھی آپ کے علم میں یہ بات آئی کہ کہیں اللہ کی ذات کے ساتھ شرک ہو رہا ہے تو آپ علیہ السلام اس مقام تک رسائی حاصل کرتے اور لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے۔ سبا کی ملکہ سے آپ کے تنازع کا اصل سبب یہی تھا کہ سبا کے لوگ اللہ کو چھوڑ کر سورج کی پرستش کر رہے تھے۔ اسی وجہ سے آپ نے ملکہ سبا کو اپنے دربار میں طلب کر کے توحید کی دعوت دی‘ جس کو اس نے قبول کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے جناب ایوب علیہ السلام کی بیماری اور شفا کا بھی ذکر کیا۔ جناب ایوب علیہ السلام طویل عرصہ تک بیمار رہے اور اس بیماری نے آپ کو بے بس کر دیا۔ جناب ایوب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگی کہ اے پروردگار! شیطان مجھے تکلیف دے رہا ہے‘ آپ مجھ پر رحم فرمائیں‘ بے شک آپ سب سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام تکلیفوں کو دور فرما دیا۔
سورۃ الزمر
اس کے بعد سورہ زمر ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاکﷺ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے۔ پس‘ آپ مخلص ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ فرمایا کہ بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کے علاوہ مددگار تلاش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی پوجا اس لیے کر رہے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان اختلافات کا فیصلہ وہ خود فرمائے گا اور بے شک وہ جھوٹ بولنے والے گمراہوں کو کچھ ہدایت نہیں دیتا۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے انسانوں کو تین اندھیروں میں سے پیدا فرمایا‘ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حقیقی گھاٹا ان لوگوں کیلئے ہے‘ جن کو اللہ تعالیٰ نے آخرت میں گھاٹا دیا اور یہ وہ لوگ ہیں جن کو آگ کا عذاب سہنا ہو گا اور ان کے مقابلے میں جنتیوں کو ایسے بالا خانے ملنے والے ہیں‘ جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا۔ اللہ فرماتا ہے کہ اُس نے بہترین بات کو نازل کیا‘ جس کے مضامین میں ہم آہنگی اور تکرار بھی ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے‘ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دل اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور جس کو اللہ گمراہ کر دے‘ کوئی اس کو ہدایت دینے والا نہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
چوبیسویں پارے کا خلاصہ
چوبیسویں پارے کا آغاز سورہ زمر سے ہوتا ہے۔ سورہ زمر کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچی بات اس تک پہنچ گئی تو اسے جھٹلا دیا۔ جھوٹ باندھنے والے لوگوں میں وہ تمام گروہ شامل ہیں جنہوں نے اللہ کی ذات کے ساتھ شرک کیا۔ کفار مکہ نے بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہرایا اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا۔ اسی طرح عیسائیوں نے سیدنا مسیح علیہ السلام کو جبکہ یہودیوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔ یہ تمام کے تمام گروہ اس بات سے غافل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کو کافروں کے لیے تیار کر رکھا ہے۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ رسول اللہﷺ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سچائی کی دعوت کو لے کر آئے ہیں اور جس کسی نے آپﷺ کی تصدیق کی وہ اہلِ تقویٰ ہیں اور ان لوگوں کے لیے پروردگارِ عالم کے پاس وہ سب کچھ موجود ہے‘ جو وہ چاہیں گے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم نے لوگوں کی ہدایت کے لیے آپﷺ پر کتاب کو نازل کیا ہے پس جو ہدایت کو قبول کرے گا اپنی ذات کے لیے کرے گا اور جو کوئی رو گردانی کرے گا‘ اس کا نقصان اسی کو سہنا پڑے گا۔ اللہ کے حبیبﷺ کو کافر طرح طرح کی باتیں کرکے ایذا دیا کرتے تھے اور رسو ل اللہﷺ اس پر رنجیدہ ہو جاتے کہ آپ ان کو صراطِ مستقیم کی دعوت دیتے ہیں اور وہ آپ کی حق پر مبنی دعوت کو ٹھکرا دیتے ہیں۔ اس پر اللہ نے کہا کہ جو ہدایت کو قبول کرے گا تو وہ اپنے فائدے کے لیے کرے گا اور جو کوئی گمراہ ہو گا اس کا نقصان اسی کی ذات کو ہوگا۔ اس سورہ میں اللہ نے اپنے بندوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے میرے بندو! جو اپنی جانوں پر ظلم کر چکے ہو‘ میری رحمت سے ناامید نہ ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی منظر کشی بھی کی ہے کہ قیامت کے دن تمام زمین اللہ کی مٹھی میں ہو گی اور سارے آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ اس سے آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب صور میں پھونک ماری جائے گی تو آسمان اور زمین میں جتنے رہنے والے ہیں‘ سب بے ہوش ہو جائیں گے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا۔ پھر دوسری بار اس میں پھونک ماری جائے گی تو وہ کھڑے ہوکر دیکھنے لگیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی اور تمام اعمال نامے کھول کر رکھے جائیں گے اور انبیاء کرام اور شہداء لائے جائیں گے اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ہر جان کو اس کے کیے کا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
سورہ مومن
سورۃ الزمر کے بعد سورہ مومن ہے۔ سورہ مومن کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض صفات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو معاف کرنے والا اور توبہ کو قبول کرنے والا ہے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ سورہ مومن میں اللہ تعالیٰ نے عرشِ عظیم کو اٹھانے والے فرشتوں کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ عرشِ عظیم کو اٹھانے والے فرشتے اور جو فرشتے اس کے ارد گرد جمع ہیں یہ سب اپنے رب کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان والوں کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تُو نے اپنی رحمت اور علم کے ذریعے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے پس تو ان لوگوں کو معاف کر دے جنہوں نے توبہ کی اور تیری راہ کی پیروی کی اور تو انہیں جہنم کے عذاب سے نجات دے۔ اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشہ رہنے والی ان جنتوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے ہمراہ ان کے ماں باپ، بیویوں اور اولادوں میں سے ان لوگوں کو بھی داخل فرما جو نیکی کی راہ پر چلے ہوں، بے شک تو زبردست حکمتوں والا ہے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والے لوگ کافروں کے علاوہ کوئی نہیں ہوتے اور زمین پر ان کے ٹھاٹ باٹ اور شاہانہ اندازِ زندگی کو دیکھ کر انسان کو گمراہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ عرشِ عظیم کو اٹھا نے والے فرشتے اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی حمد اور تسبیح کو بیان کرتے ہیں اور زمین پر موجود اہلِ ایمان کے لیے دعا ئے مغفرت بھی کرتے ہیں۔ اس سورہ مبارکا میں قیامت کی ہولناکیوں کا بھی ذکر ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ شدید غضبناک ہوں گے اور تکرار سے یہ آواز بلند فرمائیں گے ''آج کے دن کسی کی بادشاہی ہے؟‘‘ اور پھر خود ہی جواب دیں گے کہ ''اللہ واحد و قہار کی بادشاہی ہے‘‘۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے اس عزم کا بھی ذکر کیا کہ اس نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تھا تو جناب موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے اور تیرے پرور دگار کی پناہ طلب کرتا ہوں ہر اس متکبرکے شر سے جو یوم حساب پر یقین نہیں رکھتا۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کے قبیلے کے ایک مومن شخص کا بھی ذکر کیا ہے جو دربارِ فرعون میں ایک اعلیٰ منصب پر فائز تھا اور اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا‘ لیکن جب فرعون نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تو اس صاحبِ ایمان شخص کیلئے یہ بات نا قابلِ برداشت ہو گئی اور اس نے اس موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی علانیہ حمایت کی اور اپنے ایمان کا بر ملا اظہار کیا۔ اس نے فرعونیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہو جو صرف یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس کھلی نشانیاں بھی لے کر آیا ہے؟ اگر بالفرض وہ جھوٹا ہو گا تو اس کے گناہ کا وبال اسی پر ہو گا لیکن اگر وہ سچا ہوا اور جس عذاب کی وہ وعید سناتا ہے‘ وہ لازماً تم پر نازل ہو کر رہے گا اور یقینا اللہ ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا اور جھوٹا ہو۔پھر اس شخص نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ تم پر بھی پچھلی امتوںقومِ نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور دوسرے جھٹلانے والوں کی طرح عذاب نہ نازل ہو جائے اور تم ایک ایسے شخص کو جھٹلا رہے ہو جو اللہ کا رسول ہونے کا دعویدار ہے حالانکہ اس سے قبل یوسف علیہ السلام بھی تمہارے پاس اپنے رب کی طرف سے کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے اور جب وہ فوت ہو گئے تو تم کہنے لگے کہ اب اللہ کوئی اور پیغمبر نہیں بھیجے گا۔اللہ تعالیٰ نے اس مومن کے ایمان کو قبول کر لیا اور اس کو فرعون کے مکر سے نجات دلا دی۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم مدد کریں گے اپنے رسولوں اور اہل ایمان کی دنیا میں بھی اور جب قیامت قائم ہو گی۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری دعائوں کو سنوں گا۔ بے شک وہ لوگ جو اللہ کی عبادت سے تکبر کرتے ہیں ان کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔
سورہ حم السجدہ
سورہ مومن کے بعد سورہ حم السجدہ ہے۔ سورۃ حم السجدہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے نزول کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہﷺ لوگوں کو ڈرائیں اور ان کو بشارت دیں مگر لوگوں کی اکثریت قرآن مجید کی دعوت سے اعراض کر لیتی ہے اور کہتی ہے ہمارے کان اور دل آپ کی دعوت کو سننے اور ماننے سے قاصر ہیں۔ یہ کافروں کی بدنصیبی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کھلی آیات کو جھٹلاتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ایسے لوگ مشرک اور آخرت کا انکار کرنے والے ہیں ان کے مدمقابل جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کرنے والے ہیں‘ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑے اجر کو تیار کر دیا ہے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے قومِ عاد و ثمود پر آنے والے عذابوں کا بھی ذکر کیا ہے کہ قومِ عاد کے لوگ اپنی قوت پر نازاں تھے اور اس بات کو بھول چکے تھے کہ اللہ تعالیٰ جو ان کو بنانے والا ان کا خالق و مالک ہے‘ ان سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ اس طرح قومِ ثمود کو اللہ نے اپنی واضح نشانیاں دکھلائیں لیکن وہ قوم اللہ تعالیٰ کی نشانیاں دیکھ کر بھی بغاوت پر آمادہ و تیار رہی۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور انہوں نے اس پر استقامت کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ ان پر موت کے وقت فرشتوں کا نزول فرمائے گا اور فرشتے ان کو کہیں گے کہ نہ ڈرو اور نہ غم کھائو‘ تم کو جنت کی بشارت دی جاتی ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین!
پچیسویں پارے کا خلاصہ
قرآن پاک کے پچیسویں پارے کا آغاز سورہ حم سجدہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پچیسویں پارے کے شروع میں ارشاد فرماتے ہیں کہ قیامت کا علم اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے‘ اسی طرح ہر اُگنے والے پھل کا علم اس کے پاس ہے اور ہر عورت کے حمل اور اس کے بچے کی پیدائش کا علم اللہ کے پاس ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ خود بنانے والے ہیں‘ اس لیے اس سے کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کافروں کو پکارے گا اور پوچھے گا کہ وہ کہاں ہیں جنہیں تم نے میرا شریک قرار دے رکھا تھا؟ تو کافر کہیں گے کہ ہمیں ان کی کچھ خبر نہیں اور جن کو وہ خدا کے سوا پکارتے ہوں گے‘ وہ سب غائب ہو جائیں گے اور کافر یقین کر لیں گے کہ آج اللہ کے سوا کوئی مخلص نہیں‘اس کے در کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں۔ لیکن اس موقع پر کسی کا ایمان لانا اسے نفع نہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سورہ میں فرماتے ہیں کہ انسان بھلائی کی دعائیں کرتے ہوئے نہیں تھکتا لیکن جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ وہ انسان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذاتوں میں بھی‘ یہاں تک کہ انسانوں کو یقین ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے۔
سورۃ الشورٰی
اس کے بعد سورۃ الشوریٰ ہے۔ سورۃ الشوریٰ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا ہے کہ فرشتے اپنے رب کی پاکی اور اس کی تعریف بیان کرتے ہیں اور زمین میں رہنے والے اہل ایمان کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مخلوق پر کس قدر مہربان ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نورانی فرشتے جہاں اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں‘ وہیں پر اللہ کے حکم سے اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت بھی کرتے ہیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے آپﷺ پر قرآن عربی کی وحی کی ہے تاکہ آپؐ ام القریٰ (مکہ مکرمہ) اور اس کے گرد بسنے والوں کو قیامت کے دن سے ڈرائیں‘ جس کی آمد میں کوئی شبہ نہیں ہے اور جب ایک گروہ جنت میں جائے گا اور ایک گروہ جہنم میں۔ رسول کریمﷺ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کرام مبعوث ہوئے‘ وہ سب کے سب اپنی بستیوں، اپنے علاقوں اور اپنی اقوام کے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو جمیع انسانیت کا رہنما بنا دیا اور آپﷺ کی دعوت مکہ مکرمہ سے شروع ہوئی‘ جو بستیوں کی ماں یعنی ان کا مرکز ہے اور اس کے بعد یہ پوری دنیا میں پھیل گئی۔
اس سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو آپ اس دن ظالموں کو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے خوفزدہ دیکھیں گے اور اس کا وبال ان پر آ کر رہے گا اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے تو وہ جنت کے باغات میں ہوں گے۔ اس سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول کریمﷺ کو تلقین کی کہ آپ اعلان فرما دیں کہ میں دین کی دعوت کے سلسلے میں کسی اجر کا طلبگار نہیں ہوں‘ لیکن میں اتنا ضرور چاہوں گا کہ میرے اعزہ و اقارب سے پیار کا سلوک کیا جائے۔ انبیا علیہم السلام دعوت دین کا کام صرف اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں اور اس کے بدلے وہ دنیا کی زندگانی اور آسائشوں کے طلبگار نہیں ہوتے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ انسان کو زندگی میں جتنی بھی مصیبتیں آتی ہیں‘ ان کا بنیادی سبب انسان کے اپنے گناہ ہوتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ بہت سے گناہوں کو نظر انداز فرما دیتے ہیں۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمیدکے ایک اور مقام پر ارشاد ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ انسانوں پر گرفت فرمائیں تو زمین پر کو ئی مخلوق زندہ باقی نہ رہے۔ اس سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ مسلمانوں کے تمام کام مشاور ت سے طے ہوتے ہیں‘ یعنی حقیقی مسلمان ہر کام میں اپنی رائے کو مقدم سمجھنے کے بجائے مشاورت کے راستے کو اختیار کرتا ہے۔
سورۃ الزخرف
سورۃ الشورٰی کے بعد سورۃ الزخرف ہے۔ سورۃ الزخرف میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس قرآن کو عربی میں اتارنے کی وجہ یہ تھی کہ اہل عرب اس زبان کو جانتے تھے اور اس کو پڑھ کر وہ شعور حاصل کر سکتے ہیں اور یہ بھی بتلایا گیا کہ اپنے نزول سے قبل قرآن مجید‘ لوح محفوظ میں موجود تھا۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا کہ انہوں نے اپنے والد اور قوم کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ میں تمہارے معبودوں سے برأت کا اظہار کرتا ہوں اور میرا پروردگار کہ جس نے مجھے پیدا کیا ہے‘ یقینا وہی میری رہنمائی کرے گا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اس بات کو اپنی اولاد میں بھی جاری فرما دیا تاکہ وہ حق کی طرف رجوع کرتے رہیں۔ اس سورہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مشرکین مکہ کی معاندانہ روش کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ کہتے تھے کہ یہ قرآن مکہ اور طائف کے کسی بااثر شخص پر کیوں نہیں اترا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یوں دیا کہ کیا میری رحمتوں کو تقسیم کرنا ان کے اختیار میں ہے؟ میں جب چاہتا ہوں اور جہاں چاہتا ہوں اپنی رحمت کو اتار دیتا ہوں۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اعراض کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ شیطان کو ان کا ساتھی بنا دیتے ہیں اور وہ راہِ ہدایت سے بھٹک جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ سیدھے راستے پر ہیں۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے تھے‘ جن پر اللہ نے اپنا انعام کیا تھا اور ان کو بنی اسرائیل کے لیے اپنی نشانی بنا دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی ایک نشانی ہیں اور حدیث پاک میں اس بات کی صراحت ہے کہ قرب قیامت عیسیٰ علیہ السلام فرشتوں کے جلو میں دمشق کی جامع مسجد کے شرقی مینار پر اتریں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے‘ صلیب کو توڑیں گے ‘ جزیے کو موقوف کریں گے اور فتنہ دجال کا خاتمہ فرمائیں گے۔
سورۃ الدخان
اس کے بعد سورۃ الدخان ہے۔ سورہ دخان میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے قرآن مجید کو برکت والی رات میں نازل فرمایا ہے۔ سورہ دخان میں بھی اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کو آزمائش میں ڈالا اور ان کے پاس ایک عزت والے رسول یعنی موسیٰ علیہ السلام آئے‘ جنہوں نے اس سے کہا: تم اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کر دو‘ میں بے شک تمہارے لیے اللہ کا امانت دار پیغمبر ہوں اور اللہ کے حکم سے سرکشی اختیار نہ کرو، بے شک میں تمہارے پاس ایک واضح دلیل لے کر آیا ہوں۔ فرعون نے اس موقع پر جناب موسیٰ علیہ السلام کو سنگسار کرنے کی دھمکی دی‘ جناب موسیٰ نے اس سے کہا کہ میں اپنے اور تمہارے رب سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم مجھے سنگسار کرو۔ اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو مجھ سے دور ہو کر رہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پروردگار عالم کو پکار کر کہا کہ اے رب! یہ تو مجرموں کی قوم ہے۔ تو اللہ نے ان سے کہا: آپ میرے بندوں کو لے کر رات میں نکل جائیے‘ آپ کا پیچھا کیا جائے گا اور آپ کے لیے ہم سمندر کو ٹھہری ہوئی حالت میں چھوڑ دیں گے۔ بے شک یہ (تعاقب کرنے والے) ڈوبنے والا لشکر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس طریقے سے بنی اسرائیل کو سرکش اور حد سے تجاوز کرنے والے فرعون کے رسوا کن عذاب سے نجات دی۔
سورۃ الجاثیہ
اس کے بعد سورۃ الجاثیہ ہے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی نشانیوں کا ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین و آسمان میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے اور انسانوں اور جانوروں کی تخلیق میں نشانیاں ہیں‘ یقین رکھنے والوں کے لیے اور صبح و شام کی گردش میں اور آسمان سے اترنے والے پانی میں جس سے مردہ زمینیں زندہ ہوتی ہیں اور ہوائوں کے چلنے میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سمندروں کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے ان سمندروں میں کشتیوں کو چلایا جائے اور اس کے فضل کو تلاش کیا جائے تاکہ اس کا شکریہ ادا کیا جائے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب و حکمت اور نبوت دی اور پاکیزہ رزق بھی دیا اور ان کو جہانوں پر فضیلت دی۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت اور یہ فضیلت بنی اسرائیل سے لے کر رسول کریمﷺ کے ذریعے مسلمانوں کے سپرد کر دی اور تلقین کی کہ یہود و نصاریٰ کی خواہشات کو کوئی اہمیت نہیں دینی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کرنی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!
چھبیسویں پارے کا خلاصہ
سورۃ الاحقاف
قرآن پاک کے چھبیسویں پارے کا آغاز سورۃ الاحقاف سے ہوتا ہے۔ سورۃ الاحقاف میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ مشرک کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جو شرک کرتے ہیں‘ ان کو کہیے کہ اگر وہ سچے ہیں تو کوئی سابقہ کتاب یا علم کا ٹکڑا اپنے موقف کی دلیل کے طور پر لے کر آئیں۔ مزید ارشاد ہوا کہ اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا‘ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو پکارتا ہے‘ جو قیامت تک اس کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے اور وہ ان کے پکارنے سے غافل ہیں۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے‘ پھر اس پر استقامت کو اختیار کیا تو نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ غم اور یہی لوگ جنتی ہیں‘ ہمیشہ اس میں رہیں گے اور ان کو ان کے نیک اعمال کی جزا ملے گی ۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین سے اچھے برتاؤ کا حکم دیا ۔اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اس کو اٹھائے رکھا اور تکلیف کے ساتھ اسے جنم دیا اور اس کے حمل اور اس کے دودھ پینے کی مدت تیس ماہ ہے‘ یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کی انتہا کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوا تو اس نے کہا: اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو دی اور مجھے توفیق دے کہ میں ایسے نیک اعمال کروں‘ جنہیں تو پسند کرتا ہے اور تو میری اولاد کی اصلاح کر دے‘ میں تیری بارگاہ میں آکر توبہ کرتا ہوں اور بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں؛ یہی وہ لوگ ہیں‘ جن کے بہترین اعمال کو ہم قبول کرتے ہیں اور ان کی خطاؤں کو معاف کرتے ہیں اور یہی لوگ جنتی ہیں۔ اس سچے وعدے کے مطابق جو‘ ان سے دنیا میں کیا جاتا تھا۔اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ آپ ویسے صبر فرمائیں‘ جس طرح آپ سے قبل اولو العزم انبیا کرام‘ یعنی نوح‘ ابراہیم‘موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام اجمعین صبر فرماتے رہے۔ جب رسول اللہ حضرت محمدﷺ نے دعوتِ دین پر صبر کیا تو آپﷺ کا صبر تمام انبیائے سابقہ کے صبر پر سبقت لے گیا۔ ایک حدیث شریف میں خود آپﷺ نے فرمایا کہ جس قدر تکالیف مجھ پر نازل ہوئیں‘ مجھ سے پہلے کسی نبی پر اتنی مصیبتیں نہیں آئیں۔
سورہ محمد
سورۃ الاحقاف کے بعد سورہ محمد ہے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ اعلان فرماتے ہیں کہ جو لوگ کفر کا ارتکاب کرتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں ان کے اعمال گمراہ کن ہیں اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور رسول اللہﷺ پر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان لائے‘ جس کو اللہ نے حق کے ساتھ نازل فرمایا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی خطاؤں کو معاف کر دیا اور ان کے معاملات کو سنوار دیا ہے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے منکروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اہل کفر کا رہن سہن اور کھانا جانوروں کے کھانے کی مانند ہے اور جہنم ان کا ٹھکانہ ہے۔ جس طرح جانور حلال وحرام کی تمیز کے بغیر کھاتے ہیں‘ اسی طرح کافر بھی حلال و حرام کی تمیز کے بغیر کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے جہنم کے دھکتے ہوئے انگاروں کو تیار کر دیا ہے‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ لوگ قرآن مجید پر کیوں غور نہیں کرتے؟ کیا ان کے دل پر تالے لگے ہوئے ہیں؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کے راستے سے روکتے رہے اور ہدایت واضح ہو جانے کے باوجود رسول کریمﷺ کی مخالفت کی‘ وہ اللہ تعالیٰ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے اور ان کے اعمال برباد ہو چکے ہیں۔
سورہ فتح
اس کے بعد سورہ فتح ہے۔ سورہ فتح میں رسول کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے فتح ِ مبین کی بشارت دی تھی۔ اس فتح مبین کا پس منظر یہ ہے کہ رسول کریمﷺ اپنے 1400 رفقاء کے ہمراہ عمرہ کرنے کے لیے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے۔ جب منزل قریب آئی تو مشرکین مکہ نے نبی کریمﷺ اور آپ کے اصحاب کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ آپﷺ نے مذاکرات کے لیے جناب عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر روانہ فرمایا۔ جب آپؓ کی واپسی میں تاخیر ہوئی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ سے قصاصِ عثمان کیلئے بیعت کا تقاضا کیا تو صحابہ کرام ؓنے فوراً سے پہلے نبی رحمتﷺ کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ ان فدا کار مومنوں سے راضی ہوئے اور قرآنِ مجید میں اللہ نے فرمایا کہ اللہ ان مومنوں سے راضی ہے‘ جنہوں نے درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ کچھ دیر بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بخیر و عافیت واپس آ گئے، البتہ اس بیعت کی خبر مکہ والوں کو ہو گئی اور انہوں نے مسلمانوں کو جنگ کیلئے تیار پایا تو صلح پر آمادہ ہو گئے۔ اس موقع پر رسول کریمﷺ نے مکہ والوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے صلح حدیبیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی کچھ شرائط ایسی تھیں جو بظاہر مسلمانوں کے خلاف محسوس ہوتی تھیں جس کی وجہ سے کچھ لوگوں میں غصہ بھی پایا جاتا تھا کہ اگر ہم کفارِ مکہ کے مقابلے میں کمزور نہیں ہیں تو ایسا معاہدہ کیوں قبول کر رہے ہیں جس کی تمام شرائط کا بظاہر فائدہ اہلِ مکہ کو جاتا ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورہ فتح نازل فرما کر رسول کریمﷺ کو فتح مبین کی بشارت دی اور ان آیات کے نزول کے بعد رسول کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ کے دل خوشی سے معمور ہو گئے۔ اللہ نے فرمایا کہ جن شرائط کو تم اپنے خلاف سمجھ رہے ہو درحقیقت یہ مسلمانوں کی کھلی فتح کے مترادف ہیں۔ اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا کہ صرف دو برس کے قلیل عرصے میں مسلمانوں کو فتح مکہ جیسی عظیم کامیابی حاصل ہو گئی۔
سورۃ الحجرات
اس کے بعد سورۃ الحجرات ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اہل ایمان کو اللہ اور اس کے رسول کریمﷺ سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ''اے ایمان والو! نبیﷺ کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو اور ان کے سامنے بلند آواز سے اس طرح بات نہ کرو‘ جس طرح تم میں سے بعض بعض کے سامنے اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ ورنہ تمہارے اعمال برباد ہو جائیں گے اور تمہیں اس کا پتا بھی نہیں چلے گا۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جب کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ تم بغیر سبب کے کسی قوم کے خلاف ہو جاؤ اور بعد میں تمہیں اپنے کیے پر ندامت کا سامنا کرنا پڑے ۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر مومنوں کے دو گروہوں کی آپس میں جنگ ہو جائے تو ان کے درمیان صلح کروا دینی چاہیے‘ اگر ایک گروہ سرکشی پر تلا رہے تو ایسی صورت میں باغی گروہ کے خلاف جنگ کرنی چاہیے‘ یہاں تک کہ وہ صلح پر آمادہ ہو جائے۔ ساتھ ہی اللہ تعالیٰ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں‘ ان کی صلح صفائی کروا دیا کرو۔ اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے تجسس کی بھی شدت سے مذمت کی ہے اور بدگمانی کو گناہ قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ قبائل قومیں اور گروہ تمہارے تعارف کے لیے بنائے گئے ہیں جبکہ فضیلت کا سبب تقویٰ ہے۔ جو پرہیزگار ہے‘ وہی اللہ کی نظروں میں عزت دار ہے۔
سورہ ق
اس کے بعد سورہ ق ہے۔ سورہ ق میں اللہ تعالیٰ نے تخلیقِ ارض و سماوات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں بنایا اور چھ دن میں کائنات کی تخلیق کے بعد اس کو تھکاوٹ اور اکتاہٹ کا احساس تک بھی نہیں ہوا۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ جہنم میں جب جہنمی ڈال دیے جائیں گے تو جہنم کہے گی کہ میرے اندر اور لوگوں کو ڈالا جائے۔ جہنم سے بچ نکل کرجنت میں داخل ہوجانے والے خوش نصیب وہی ہوں گے جنہوں نے تقویٰ اور پرہیز گاری کو اختیار کیا ہو گا۔ اس سورہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ قرآن مجید کے ذریعے ان کو نصیحت کریں جن کے دلوں میں خوف ہے ۔
سورۃ الذاریات
اس کے بعد سورۃ الذاریات ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی قسمیں اٹھانے کے بعد کہا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!
ستائیسویں پارے کا خلاصہ
قرآن پاک کے ستائیسویں پارے کا آغاز سورہ اَلذَّارِیَات سے ہوتا ہے ۔اس سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں اور جنات کی تخلیق کے مقصد کا بھی ذکر کیا ہے کہ جنات اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نہ تو مجھے ان سے رزق کی طلب ہے اور نہ میں نے کبھی ان سے کھانا مانگا ہے ۔
اس کے بعد سورہ طور ہے ۔سورہ طور میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے طور پہاڑ‘ بیت معمور‘ بلند و بالا آسمان ‘سمندر کی لہروں اور کتابِ مقدس کی قسم اٹھا کر کہا ہے کہ قیامت کا دن ضرور آئے گا اور اس دن پہاڑ چلنے لگیں گے اس دن یوم جزا کو جھٹلانے والوں کو جہنم کی آگ کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کو کہا جائے گا کہ یہ وہ آگ ہے ‘جس کا تم انکار کیا کرتے تھے ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اہلِ تقویٰ جنت اور نعمتوں میں پروردگار کی عطاؤں سے بہرہ مند ہو رہے ہوں گے اور ان کا رب ان کو عذابِ جہنم سے بچالے گا ۔ان سے کہا جائے گا کہ اپنے اعمال کے بدلے جو جی چاہے کھاؤ اور پیو اور وہ ایک دوسرے سے جڑے قطار میں بچھے تختوں پر ٹیک لگائے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کشادہ اور بڑی آنکھوں والی حوروں کو ان کی زوجیت میں دے گا اور اہل ایمان کی اولاد نے بھی ‘اگر ایمان اور اعمال صالحہ میں اپنے آبا کی پیروی کی ہو گی‘ تو اللہ تعالیٰ جنت میں ان کی اولاد کو ان سے ملا دیں گے۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نہ تو (معاذاللہ) کاہن تھے اور نہ ہی شاعر ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر کافر اپنے الزامات میں سچے ہیں تو ان کو چاہیے کہ قرآن مجید جیسی کوئی بات پیش کریں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے ان کو سوچنا چاہیے کہ ان کو کس نے بنایا ہے یا وہ خود ہی اپنے خالق ہیں‘ در حقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار کرنے والوں کے دلائل انتہائی کمزور اور کھوکھلے ہیں ۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو صبر کی تلقین بھی کی اور کہا کہ آپ اپنے پروردگار کے حکم پر صبر کریں‘ بے شک آپ میری آنکھوں کے سامنے ہیں ‘یعنی جو صبر بھی رسول کریمﷺ کریں گے ۔اللہ تعالیٰ اس سے بخوبی آگاہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور معیت ہمیشہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے ۔سورہ طور کے بعد سورہ النجم ہے اور سورہ النجم میں پروردگار عالم نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت تک کوئی کلام نہیں کرتے ‘جب تک مالکِ کائنات ان پر وحی کا نزول نہیں فرماتے ۔اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے سفر ِمعراج کا بھی ذکر کیا ہے اور یہ بھی ارشاد فرمایا ہے ‘کے انہوں نے سفر معراج میں اپنے پروردگار کی بہت سی نشانیوں کو دیکھا تھا‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کیا جو میرے بندے نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تم اس پر شک کرتے ہو؟
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ کفرکے اس باطل عقیدے کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ فرشتوں کو عورتیں قرار دیتے تھے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے وہ فرشتوں کو عورتیں قرار دیتے ہیں اور ان کے پاس اس حوالے سے کچھ بھی علم نہیں۔ وہ لوگ صرف وہم اور گمان کی پیروی کرتے ہیں‘جبکہ گمان حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ کبیرہ گناہوں اور فحاشی کے کاموں سے اجتناب کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کی وسعت کا بھی ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو اس وقت سے جانتے ہیں ‘جب ان کے خمیروں کو مٹی سے اٹھایا گیا اور جب وہ اپنی ماؤں کے پیٹوں میں جنین کی حیثیت سے موجود تھے ۔اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں اور موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی کے اہم مضامین کا ذکر کیا کہ ان صحیفوں میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرما دیا تھا کہ بے شک انسان کے لیے وہی کچھ ہے‘ جس کی وہ کوشش کرتا ہے اور وہ اپنی کوشش کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا ۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو قرآن مجید پر تعجب کرتے ہیں اور رونے کی بجائے ہنسی مذاق میں اپنا وقت بتا رہے ہیں اور موسیقی سننے میں اور دیگر لغویات میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں ۔پس ‘اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہیے اور اُسی کی عبادت کرنی چاہیے ۔
اس کے بعد سورہ القمرہے ‘ جس کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔شق قمر کا واقعہ رسول اللہ ﷺ کی ہجرت سے تقریباً پانچ برس قبل رونما ہوا اور چاند جبل حرا کے دونوں طرف ہوگیا۔ اتنی بڑی نشانی کودیکھ کر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کافر ایمان لے آتے لیکن وہ سرکشی پر تلے رہے‘ جس پر اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا۔ کفار اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تومنہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ایک جادو ہے‘ جو پہلے سے چلا آ رہا ہے ۔
سورہ القمر میں اللہ تعالیٰ نے قوم نوح ‘ قوم لوط کا ‘قوم عاد اور قوم ثمود کا ذکر کیا کہ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے ۔قوم نوح پر سیلاب‘ قوم عاد پر ہوا‘ قوم ثمود پر چیخ اور قوم لوط پر پتھروں کی بارش کو برسایا گیا۔اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اس حقیقت کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو سمجھنے والوں کے لیے آسان بنادیا پس ہے‘ کوئی جو نصیحت کو حاصل کرے ۔اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے متقیوں کے مقام کا ذکر کیا کہ بے شک پرہیزگار لوگ جنت اور نہروں میں ہوں گے ‘اپنے حقیقی گھروں میں مقتدر بادشاہ کے پاس ۔
سورہ الرحمن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ رحمن نے قرآن مجید سکھلایا‘ انسان کو بنایا اور اس کو بیان کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی۔ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی تسبیح کو بیان کرتے ہیں اور ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اسی نے آسمان کو بنایا اور ترازو کو قائم کیا ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انسانوں کو چاہیے کہ ترازو کو صحیح طریقے سے قائم کیا کریں اور تولنے میں کوتاہی نہ کیا کریں ۔اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے زمین کی تخلیق کا بھی ذکر کیا اور اس میں مختلف طرح کے پھلوں اور خوشبوؤں کو پیدا فرمایا اور انسانوں اور جنات کو مخاطب ہو کر کہا کہ تم دونوں گروہ پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟
اللہ تبارک و تعالی نے اس سورہ میں جنت کے حسین مناظر کو بیان کیا ہے کہ جو شخص اپنے رب کے مقام سے ڈرتا ہے‘ اس کے لیے دو باغ ہیں۔وہ دونوں باغ سبز شاخوں والے ہوں گے۔ ان دونوں باغوں میں دو چشمے رواں ہوں گے۔ ان دونوں میں ہرپھل کی دو قسمیں ہوں گی۔سورہ کے آخر میں اللہ تبارک وتعالیٰ ذوالجلال و الاکرام نے اپنے نام کے بابرکت ہونے کا بھی ذکر کیا ہے ۔
سورہ الرحمن کے بعد سورہ واقعہ ہے ۔سورہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کا ذکر کیا ۔ایک گروہ مقربین کا دوسرا عام جنتیوں کا اورتیسرا گروہ جہنمیوں کا ہے۔ مقربین کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی نعمتوں کو تیار کیا ہے‘ جبکہ عام جنتی بھی اللہ تعالیٰ کی عنایات پر شاداں و فرحاں ہوں گے ‘جبکہ جہنمیوں کو تھوہر کا درخت کھانا پڑے گا‘ جس سے ان کے معدے ابل اور پگھل جائیں گے اور ان کو پیپ اور بھاپ والا پانی پلایا جائے گا ۔
سورۃ واقعہ کے بعد سورہ الحدید ہے اور سورہ حدید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کا ذکر کیا کہ وہ اول بھی ہے اور آخر بھی اور ظاہر بھی ہے اور پوشیدہ بھی اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ اس سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے صحابہ کرام ؓکی دو جماعتوں کا بھی ذکر کیا کہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لانے والے صحابہؓ کا مقام فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والوں کے مقابلے میں زیادہ ہے‘ لیکن دونوں گروہ جنتی ہیں ۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی ایمانی حالت کا بھی ذکر کیا ہے کہ کتاب کے نزول کا ایک عرصہ بیت جانے کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے اوران کی اکثریت گناہ گار ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو تلقین فرماتے ہیں کہ ان کی مانند مت ہوجانا۔ اللہ سے دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید میں مذکور مضامین سے اور حقائق سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دے ۔(آمین!)
اٹھائیسویں پارے کا خلاصہ
قرآن پاک کے اٹھائیسویں پارے کا آغاز سورہ مجادلہ سے ہوتا ہے ۔سورہ مجادلہ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے سیدہ خولہ بنت ثعلبہ رضی اللّٰہ عنہا کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ جن کے شوہر نے ناراضی میں ان کو کہہ دیا تھا کہ تم میرے لیے میری ماں کی پشت کی طرح ہو ۔وہ اس معاملے پر رہنمائی حاصل کرنے کے لیے رسول کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں تو آپ ﷺنے بھی اس مسئلے پر رخصت دینے سے انکار فرمادیا (سیدہ خولہ رضی اللّٰہ عنہا نے اس مسئلے پر آپ ﷺ سے مزید بات کرنا چاہی تو نبی کریمﷺ نے ان سے اعراض کرلیا) اس پر سیدہ خولہ رضی اللّٰہ عنہانے بارگاہ رب العٰلمین میں دعا مانگی کہ اے اللہ ! اس سلسلے میں میری مدد فرما ۔اللہ تعالیٰ نے سیدہ خولہ رضی اللّٰہ عنہا کی فریاد کو سن لیا اور حضرت رسول کریم ﷺ پر وحی کو نازل فرمایا کہ اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے ‘جو آپ ﷺ سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث کر رہی تھی اور اللہ تعالیٰ آپ دونوں کا مکالمہ سن رہا تھا ‘بے شک اللہ خوب سننے اور بڑا دیکھنے والا ہے ۔ اس کے بعد اللہ نے ''ظہار‘‘ کے کفارے کے لیے حکم نازل فرمادیا کہ جو لوگ اپنی بیویوں سے ''ظہار‘‘ کر لیں اور پھر اپنی کی ہوئی بات سے رجوع کرنا چاہیں تو انہیں یا تو ایک غلام آزاد کرنا ہوگا یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہوں گے اور ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے محبت اور نفرت کا معیار بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں‘ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے دشمن کے بارے میں محبت ہو ۔جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے لیے محبت ہے ‘وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے نفرت کرتا ہے‘ چاہے وہ اس کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔
سورہ مجادلہ کے بعد سورہ حشر ہے۔ سورہ حشر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘ جو رسول اللہ ﷺ عطا کرتے ہیں اس کو پکڑ لیا کرو اور جس سے روکتے ہیں‘ اس سے رک جایا کرو۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے تین طبقوں کا ذکر کیا ہے ۔ایک طبقہ وہ کہ جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے ہجرت کی اور اپنے گھر بار اور اموال کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور خوشنودی کے حصول کے لیے خیر باد کہہ دیا اور دوسرا طبقہ انصاری صحابہ کا تھا ‘جو مہاجرین سے محبت کرتے تھے اور ان کو دیئے گئے مال کے بارے میں اپنے دل میں معمولی سی تنگی بھی محسوس نہیں کرتے تھے اور انہیں اپنے آپ پر ترجیح دیتے تھے‘ چاہے انہیں خود تنگی کا سامنا کرنا پڑتا۔اور تیسرا طبقہ مہاجرین اور انصار کے بعد آنے والے اہلِ ایمان کا تھا‘ جنہوں نے مہاجرین اور انصار صحابہ کرام کے لیے یا اپنے سے پیشتر دنیا سے چلے جانے والے مومنوں کے لیے دعا مانگی کہ اے ہمارے رب ! تُو ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اورہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے بارے میں کینہ پیدا نہ فرما ۔بے شک تو بڑی شفقت اور رحم کرنے والا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ قرآن مجید کو کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو پہاڑ اللہ تعالیٰ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو جاتا اور ان مثالوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ غور و فکر کرنے والوں کے لیے بیان فرماتے ہیں ۔
سورہ حشر کے بعد سورہ ممتحنہ ہے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اسلام کے دشمنوں سے برأت کرنے کاحکم دیا ہے اور اس کے بعد حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کے کردار کو نمونے کے طور پر اہل ایمان کے سامنے رکھا ہے کہ جنہوں نے مشرکوں اور غیر اللہ کے پچاریوں سے کامل برأت کا اظہار کیا۔ اس سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ بھی بتلایا ہے کہ وہ کافر جو مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں اور ان کے خلاف سازشیں نہیں کرتے ‘ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اور جو کافر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں ‘ان کے ساتھ سختی والا معاملہ کرنا چاہیے۔ اس سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمان عورتوں کے نکاح کو کافر مردوں کے ساتھ ناجائز قرار دیا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ اگر کافر عورت‘ ہجرت کر کے اہل ایمان کے پاس آجائے ‘تو اہل ایمان کو حق مہر ادا کرنے کی صورت میں اس عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ہے ۔
اس کے بعد سورہ صف ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں ‘جو اللہ کے راستے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف باندھ کر لڑتے ہیں ۔اس سورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو کہا تھا کہ تم مجھے کیوں تکلیف دیتے ہو ‘جب کہ تمہارے علم میں ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔جب وہ سیدھے راستے پر نہ آئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا ۔
اس کے بعد سورہ جمعہ ہے ۔سورہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے ان علماء کا ذکر کیا ہے جو توریت کو پڑھتے تو ہیں ‘لیکن اس پر عمل نہیں کرتے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے‘ جیسے گدھے پر کتابوں کو لاد دیا جائے ۔جو کہ کتابوں کا بوجھ تو اٹھا سکتا ہے‘ لیکن اس کے معنی اور مفہوم کو سمجھ نہیں سکتا ۔اس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو جمعہ کے آداب بتلائے ہیں کہ جب جمعہ کی اذان ہو تو کاروبار چھوڑ کر فوراً جمعہ کی طرف متوجہ ہو جانا چاہیے اور جب جمعہ کی نماز کو ادا کر لیا جائے تو کاروبار کرنے کی اجازت ہے۔ سورہ جمعہ کے بعد سورہ منافقون ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا ذکر کیا کہ منافق رسول ﷺ کے پاس آ کے زبان سے شہادت دیتے تھے کہ آپ‘ اللہ کے رسول ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ کو پتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں‘ لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹ بولتے ہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ذکر کیا کہ دنیا کا مال دولت اور ان کے جسموں کی کیفیت دیکھ کر انسان متاثر ہوتا ہے‘ لیکن منافقوں کے لیے آخرت میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد سورہ تغابن ہے۔ سورہ تغابن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو مصیبت بھی آتی ہے ‘اللہ کے حکم سے آتی ہے اور جو کوئی اللہ پر ایمان لاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی فرما دیتے ہیں۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس حد تک ممکن ہو‘ اللہ تعالیٰ کے ڈر کو اختیار کرنا چاہیے ۔
اس کے بعد سورہ طلاق ہے۔سورہ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے طلاق کی مختلف عدتوں کا ذکر کیا ہے کہ بوڑھی عورت کی عدت تین ماہ ہے‘ جبکہ عام عورت کی عدت تین حیض ہے‘ جبکہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے‘ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے فوائد کا بھی ذکر کیا کہ جو تقویٰ کو اختیار کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور فرماتے ہیں‘ اس کے معاملات کو آسان فرماتے ہیں اور اس کو رزق وہاں سے دیتے ہیں ‘جہاں سے انسان گمان بھی نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد سورہ تحریم ہے ۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کو ایمان و عمل سے مشرو ط کیا ہے اور ازواج ِ مطہرات اور اہل ایمان کو سیدنا نوح اورسیدنا لوط کی بیویوں کا حوالہ دیا ہے کہ وہ نبیوں کی رفاقت میں رہ کر بھی اپنی بدعملی کی وجہ سے ناکام ہوگئیں اور ان کے مد مقابل فرعون کی بیوی آسیہ سلام اللّٰہ علیہا اورسیدہ مریم سلام اللّٰہ علیہا کامیاب رہیں کہ جنہوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی کو اختیار کیا اور اپنے کردار کو ہر طرح کی آلودگی سے بچالیا۔
تیسویں پارے کا خلاصہ
تیسویں پارے میں چونکہ سورتوں کی تعداد زیادہ ہے اس لیے تمام سورتوں پر گفتگو نہیں ہو سکے گی ۔تیسویں پارے کے بعض اہم مضامین کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی ۔تیسویں پارے کا آغاز سورہ نبا سے ہوتا ہے سورہ نبا میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی گھڑیوں کا ذکر کیا ہے کہ قیامت کی آمد ایک بہت بڑی خبر ہو گی جس کی آمد سے قبل بہت سے لوگوں کو اس کے ہونے کے بارے میں شبہات اور اختلافات تھے ۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں کی سزا کا بھی ذکر کیا کہ وہ کس طرح صدہا ہزار سال جہنم کی قید میں پڑے رہیں گے ۔
اس کے بعد سورہ نازعات ہے ۔سورہ نازعات میں پروردگارِ عالم ارشاد فرماتے ہیں جو اپنے پروردگار کے مقام سے ڈر گیا اور اس نے اپنے آپ کو خواہش سے بچالیا تو اس کا ٹھکانہ جنت ہے۔بنیادی طور پر انسان کی ہلاکت کا بڑا سبب اس کی خواہشات ہوتی ہیں اگر وہ اپنی خواہشات پر قابو پالے تو وہ یقینا کامیاب اور کامران ہو سکتا ہے ۔
سورہ نازعات کے بعد سورہ عبس ہے ۔سورہ عبس میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی گھڑیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا بھائی اپنے بھائی سے دوڑے گا اور بیٹا اپنے والدین سے دوڑے گا اور بیوی اپنے شوہر سے بھاگے گی اور والدین اپنے بیٹے سے بھاگیں گے ہر کسی کی خواہش ہو گی کہ وہ آگ سے کسی بھی طور پر بچ جائے چاہے اس کے بدلے کسی دوسرے کو پکڑ لیا جائے اس کے بعد سورہ تکویر ہے۔ سورہ تکویر میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن مجید کل کائنات کے ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو صراط مستقیم پر چلنا چاہتے ہیں۔ اور کوئی بھی انسان اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر صراط مستقیم پر گامزن نہیں ہو سکتا ۔
سورہ تکویر کے بعد سورہ انفطار ہے۔سورۃ انفطار میں اللہ تعالیٰ نے جہاں قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر کیا ہے وہیں دنیا میں انسانوں کے حساب و کتاب کو نوٹ کرنے والے فرشتوں کا بھی ذکر کیا جن کو کراماً کاتبین کہا جاتا ہے ۔کراماً کاتبین انسانوں کے عمل کو نوٹ کرتے ہیں اور یہی اعمال نامہ قیامت کے دن انسانوں کو پیش کیا جائے گا ۔
سورہ انفطار کے بعد سورہ مطففین ہے۔ سورہ مطففین میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اپنے حق میں تو ترازو کو پوری طرح استعمال کرتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے ترازو میں کمی کرتے ہیں۔ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
سورہ مطففین کے بعد سورہ انشقاق ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے کہ انسان محنت و مشقت کا خوگر ہے اور اس کو چاہیے کہ اپنے پروردگار کے لیے محنت کرے جس سے اس نے ملاقات کرنی ہے۔ اگر انسان اپنے پروردگار کے لیے محنت کرے گا تو اس کو آسان حساب کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ اپنے اہل خانہ کی طرف مسرت کے ساتھ واپس پلٹے گا ۔
سورہ انشقاق کے بعد سورہ بروج ہے۔ سورہ بروج میں اللہ تعالیٰ نے اخدود کی بستی کاذکر کیا کہ جنہوں نے ایک صاحبِ ایمان بچے کی دعوتِ تبلیغ کی وجہ سے اسلام قبول کر لیا تھا ۔اسلام قبول کرنے کی جرم میں ان کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور بے دین بادشاہ نے خندقیں کھود کر ان کو خندقوں میں جلا دیا تھا۔ بستی کے اہلِ ایمان افراد نے ہر طرح کی اذیت کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا لیکن دعوت توحید سے دستبردار ہونا گوارا نہیں کیا۔
اس کے بعد سورہ طارق ہے۔ سورہ طارق میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا ذکر کیا کہ کس طرح انسان کو پانی کے معمولی قطرے سے اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا اور جو اللہ تعالیٰ انسان کو پانی کے معمولی قطرے سے پیدا کر سکتا ہے وہ انسان کو اس کی موت کے بعد بھی آسانی سے زندہ کر سکتا ہے ۔اس لیے انسان کو اپنی حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے بعد سورۃ الاعلیٰ ہے سورۃ الاعلیٰ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ لوگوں کی نگاہ تو دنیا کی زندگی پر ہوتی ہے لیکن حقیقی اور باقی رہنے والی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ اور اس حقیقت کو صرف اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہی بیان نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان حقائق کا ذکر ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں بھی فرما دیا تھا ۔ اس کے بعد سورہ فجر میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ اقوام کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ تعالیٰ مومن کو مخاطب ہو کر کہیں گے اے مطمئن جان! اپنے پروردگار کی طرف راضی ہو کر پلٹ جا اور میرے بندوں اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
اس کے بعد سورۃ البلد ہے سورۃ البلد میں اللہ تعالیٰ نے انسان پر اپنے انعامات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دو آنکھیں، زبان اور دو ہونٹ عطا فرمائے اور اس کی رہنمائی دو راستوں کی طرف کی ہے۔ اب اس کی مرضی ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے ۔جو صحیح راستے پر چلے گا جنت میں جائے گا اور جو غلط راستہ اختیار کرے گا تو وہ جہنمی ہو گا۔ اس کے بعد سورہ شمس ہے اور سورہ شمس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نفس کو تخلیق کیا اور اس میں نیکی اور برائی کی سمجھ کو الہام کر دیا تو جو اپنے نفس کو نیکی کے راستے پر چلائے گا وہ جنتی ہوگا اور جو اپنے نفس کو آلودہ کرے گا وہ تباہ و برباد ہو جائے گا ۔اس کے بعد سورۃ الیل اور سورۃ الیل میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں جس نے صدقہ دیا اور نیکی کی تائید کی اس کے لیے اللہ تعالیٰ آسان راستے کو ہموار کر دیں گے اورجس نے بخل کیا اور اچھی بات کی تکذیب کی اللہ تعالی اس کے لیے مشکل راستے یعنی جہنم کے راستے کو ہموار کردیں گے۔
سورۃ الیل کے بعد سورہ ضحیٰ ہے اور سورہ ضحیٰ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی تلقین کی ہے کہ پروردگار کی نعمتوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔اور ان کا اظہار بھی کرنا چاہیے۔سورہ ضحیٰ کے بعد سورہ الم نشرح ہے سورہ الم نشرح میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس امر کا بھی ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے تذکروں کو بلند کر دیا ہے۔ سورہ الم نشرح کے بعد سورۃ التین ہے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انہوں نے انسانوں کو بہترین تقویم میں پیدا کیا مگر جو لوگ ایمان اور اعمال صالح کے راستے سے ہٹ گئے ان کو اللہ تعالیٰ نے بدترین مخلوق میں تبدیل کر دیا۔
سورۃ التین کے بعد سورہ علق ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں حبیبﷺ کو پروردگار کے نام سے پڑھنے کا حکم دیا کہ اس نے انسان کو سکھایا جو کہ وہ نہیں جانتا تھا سورہ علق کے بعد سورہ قدر ہے اور سورہ قدر میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا اور قدر والی رات ہزار مہینوں سے زیادہ فضیلت کی حامل ہے اور اس رات میں جبرئیل ؑ امین ہر امر کا فیصلہ لے کر فرشتوں کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور یہ رات طلوع فجر تک سلامتی والی رات ہے۔
اس کے بعد سورہ عصر میں اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم اٹھا کر انسان کو ناکام کہا ہے کہ ہر انسان ناکام ہے سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کو اختیار کیا اور حق بات اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔سورہ عصر کے بعد اہم سورۃ الکوثر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو حوض کوثر کی بشارت دی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتلایا ہے کہ آپ کا دشمن بے نام و نشان رہے ۔ان کے بعد تین قل ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی پناہ طلب کرنے کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن پڑھنے ،سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)